گلوکار الن فقیر کو مداحوں سے بچھڑے 13 برس بیت گئے

لاہور: صدارتی ایوارڈ یافتہ سندھی لوک گلوکار الن فقیر کو اپنے مداحوں سے بچھڑے 13 برس بیت چکے ہیں ان کی تیرہویں برسی گزشتہ روز خاموشی سے گزر گئی، وہ 4 جولائی 2000ء کو انتقال کر گئے تھے۔ الن فقیر 1932ء کو سندھ کے ضلع جامشورو میں پیدا ہوئے تھے اور انھوں نے صوفیانہ کلام گا کر ملک گیر شہرت حاصل کی انھوں اردو اور سندھی میں قومی ترانے بھی گائے تھے ان کی گائیگی کا انداز اس لیے منفرد تھا کہ وہ گلوکاری کے ساتھ ساتھ اعضاء کی شاعری بھی کرتے تھے۔ الن فقیر کا والد ایک ڈھولچی تھا جو کہ شادی اور دیگر تقریبات میں ڈھول بجانے کے علاوہ گانے بھی گایا کرتا تھا۔ الن فقیر اگرچہ صوفی تھا لیکن اس نے فقیر تخلص کا انتخاب کیا وہ گھر بار چھوڑ کر حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی کے مزار پر سکونت پذیر ہو گیاالن فقیر بنیادی طور پر ان پڑھ تھا لیکن خدا نے انھیں کمال کا حافظہ عطاء کیا تھا وہ جو ایک بات سن لیتا تھا اسے ازبر ہو جاتی تھی وہ دربار شاہ عبدالطیف بھٹائی پر آنے والے عقیدت مندوں کو دیکھتا اور ان سے شاہ عبدالطیف بھٹائی کا کلام سنتا وہیں پر الن فقیر نے شاہ عبدالطیف بھٹائی کا کلام گانا شروع کیا، وہ 20برس تک اسی دربار پر مقیم رہا اور روحانی فیض حاصل کرتا رہا اس کی پرسوز آواز ایک مرتبہ ریڈیو حیدر آباد تک پہنچ گئی جس کے بعد وہ ملک گیر شہرت حاصل کر گیا ۔الن فقیر نے اگرچہ سندھی زبان میں گلوکاری کی ہے لیکن اس نے یہ کلام اردو میں بھی گایا ہے۔ الن فقیر نے معروف پاپ سنگر محمد علی شہکی کے ساتھ ملک کر گانا بھی گایا جس کے بول تھے اللہ اللہ کر بھیا اس گانے نے الن فقیر کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا ا س کی گائیگی میں صوفی ازم کا رنگ جھلکتا تھا۔ الن فقیر کو صدر جنرل ضیاء الحق نے 1980ء میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا تھا اس کے علاوہ انھیں شاہ لطیف ایوارڈشہباز ایوارڈ اور کندھ کوٹ ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ۔ الن فقیر 4جولائی 2000ء کو اس فانی دنیا سے کوچ کر چکا ہے لیکن اس کی یاد آج بھی لاکھوں دلوں میں زندہ ہے سندھی زبان سے عدم واقفیت کے باوجود اس کی پرسوزاواز کے لاکھوں شیدائی آج بھی دنیا میںموجود ہیں

تبصرے بند ہیں.