ملک میں گیس بحران بے قابو ہو نے لگا، صنعتیں بند ہو رہی ہیں، گھریلو صارفین بھی پریشان ہیں۔بحران کی وجہ گیس کے محدود ملکی ذخائر میں ہر سال تیزی سے ہونے والی کمی ہے، حکام کے مطابق صرف ایک سال کے دوران گیس کی پیداوار میں 6 فیصد کمی ہوئی جبکہ طلب میں سالانہ بنیادوں پر 5 فیصد کا اضافہ ہورہا ہے۔پاکستان میں اس وقت گیس کی کل پیداوار 2006 ملین کیوبک فٹ اور طلب 3884 ملین کیوبک فٹ ہو چکی ہے جبکہ 2025 میں یومیہ 1 ارب 20 کروڑ کیوبک فٹ گیس اضافی درکارہو گی۔پٹرولیم ڈویژن حکام نے خبردار کیا ہے کہ سردیوں میں گیس کی یومیہ طلب 8 ارب کیوبک فٹ تک پہنچنے کا امکان ہے، اس دوران گیس کی مجموعی پیداوار 3 ارب 75 کروڑ کیوبک فٹ یومیہ ہو گی اور 1 ارب کیوبک فٹ یومیہ ایل این جی بھی درآمد کی جائے گی، یوں شارٹ فا ل نمایاں اضافے سے 3 ارب 25 کروڑ کیوبک فٹ یومیہ سے زائد ہوسکتا ہے۔عالمی مارکیٹ میں گیس کی بڑھتی قیمتیں بھی بحران کی اہم وجہ ہیں، پاکستان ایل این جی لمیٹڈ نے ایل این جی کے ساٹھ اضافی کارگوز فراہمی کے لیے بڈنگ طلب کی لیکن 3 اکتوبر کی مقررہ تاریخ تک کسی کمپنی نے دلچسپی ہی ظاہر نہیں کی۔حکومت نے گیس کی طلب کو مدنظر رکھتے ہوئے 2023 سے 2028 تک ہر سال 12 اضافی کارگوز منگوانے کا فیصلہ کیا تھا، اس صورتحال میں وزارت پٹرولیم نے ممکنہ گیس بحران سے نمٹنے کیلئے گیس لوڈ منیجمنٹ پلان کے لیے کمپنیوں سے ورکنگ پیپر طلب کر لیا ہے۔پلان کی روشنی میں یہ فیصلہ کیاجائے گا کہ کس سیکٹر کو کتنی گیس ملے گی؟ ایسے میں اوگرا نے بھی واضح طور پر بتادیاہے کہ گیس بحران سے نمٹنا ہے تو ذخائر کی تلاش کیلئے آپریشنز تیز کرنے کیساتھ نئے ایل این جی ٹرمینلز لگانا ہوں گے جبکہ صنعتی صارفین کو پرائَیویٹ سیکٹر کے ذریعے ایل این جی فراہمی کا بھی میکنزم بنایا جائے۔
تبصرے بند ہیں.