نثار بزمی کی دھنیں آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہیں

لاہور: پاکستان کی موسیقی میں ایک نام نثار بزمی کا بھی ہے جنھوں نے ایسی یادگار دھنیں مرتب کیں جو آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہیں ۔ نثار بزمی کا اصلی نام سید نثار احمد اور والد کا نام سید قدرت علی تھا ۔ تقسیم ہند سے قبل ممبئی کا ضلع خاندلیس کے قصبہ نصیر آباد میں سیدگھرانے میں1924ء میں پیدا ہوئے ۔ انھیں بچپن سے ہی موسیقی اور سنگیت کا شوق تھا۔ 1937ء میں استاد خان امان علی خاں کی باقاعدہ شاگردی اختیار کی، جنھوں نے اس ہونہار اور ذہین شاگرد کو موسیقی کے اسرارورموز سکھائے ۔1939 ء میں میں آل انڈیا ریڈیو میں مستقل آرٹسٹ کی حیثیت سے کام کرنے لگے ۔ 1944ء میں بمبئی ریڈیو کے ایک ڈرامہ نادر شاہ درانی نشر ہوا جس کے چند گیت انھوں نے کمپوز کیے جو بے حد پسند کیے گئے۔ نثار احمد سے نثار بزمی کے نام سے فلمی کیرئیر کا آغاز ’’جمنا پار‘‘ نامی فلم سے کیا جو 1946ء میں ریلیز ہوئی ۔ تقسیم ہند سے قبل ’’جمنا پار‘‘، ’’جیب کترا‘‘، ’’دغا باز دوست‘‘ ، ’’ایکسٹرا گرل‘‘ اور’’خوفناک آنکھیں‘‘ سمیت چالیس فلموں کا میوزک دیا ۔جن میں سے 27 ریلیز ہوئیں جب کہ 21 جون 1962ء میں مستقل طور پر پاکستان آگئے جہاں آتے ہی بیک وقت نذیر صوفی کی فلم ’’ہیڈ کانسٹبیل‘‘ اور دوسری فلم فضل احمد کریم فضلی کی ’’ ایسا بھی ہوتا ہے‘‘ کا میوزک دیا ۔ نثار بزمی کی بطور موسیقار ستر سے زائد فلموں کا میوزک دیا۔ جن میں ’’ایسا بھی ہوتا ہے‘‘، ’’لاکھوں میں ایک‘‘، ’’آگ‘‘، ’’انجمن‘‘، ’’عندلیب‘‘، ’’انمول‘‘، ’’تلاش‘‘، ’’آس‘‘، ’’پہچان‘‘، ’’تہذیب‘‘، ’’وقت کی پکار‘‘، ’’ناگ منی‘‘، ’’نورین‘‘ جیسی فلمیں شامل ہیں ۔انھوں نے ’’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘‘ ، ’’یوں زندگی کی راہ میں ٹکرا گیا کوئی‘‘، ’’موسم حسین ہے لیکن‘‘، ’’تن توپہ واروں من توپہ واروں ، میرا ایمان محبت ہے محبت قسم‘‘جیسے لازوال گیت ریکارڈ کیے مرحوم کا انتقال 22مارچ 2007ء میں آغا خان اسپتال کراچی میں ہوا تھا ۔

تبصرے بند ہیں.