عابد گوندل
قیام پاکستان کے وقت فلم سازی کا واحد مرکز لاہور تھا جہاں فلم سازی کا آغاز
عبدالرشید کاردار اور ایم اسماعیل نے محض شوقیہ طور پر کیا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے لاہور کی انڈسٹری اپنے پیروں پہ کھڑی ہوگئی کیونکہ بمبئی اور کلکتے کے مقابلے میں یہاں فلم بہت سستی بن جاتی تھی۔فلم سٹوڈیو زکی فلم میکنگ میں بنیادی حیثیت ہوتی ہے جہاں فلم میکرز کو پروڈکشن کیلئے تمام سہولیات میسر ہوتی ہیں۔قیام پاکستان سے پہلے لاہور میں پنچولی سٹوڈیو‘ پنجاب سٹوڈیو‘ سکرین اینڈ ساونڈ سٹوڈیو ‘سٹی سٹوڈیو میکلوڈ روڈ‘ آر ایل شوری کا سٹوڈیو(شاہ نور) تھے‘جہاں پر فلمیں بن رہی تھیں۔ان میں اپرمال لاہور میں پردھان سٹوڈیو ستمبر 1947ء میں دیوان سرداری لال نے کھولا تھا ۔ دو شوٹنگ فلور ‘ ایک عدد لیبارٹری اور چند دفاتر پر مشتمل اس سٹوڈیو کے مالک سیٹھ دلسگھ ایم پنچولی تھے ۔لیکن ان کے ممبئی واپس چلے جانے کی وجہ سے اسے دیوان سرداری لال چلاتے رہے۔قیامِ پاکستان کے وقت لاہور میں چھ فلم سٹوڈیو موجود تھے لیکن فسادات کی وجہ سے فلم سازی کا کاروبار درہم برہم ہو چکا تھا اور غیرمسلم فنکاروں اور تکنیک کاروںکی اکثریت بھارت چلی گئی تھی لیکن ان میں دیوان سرداری لال جودہلی چلے گئے تھے لاہور واپس آگئے۔انہوں نے پنچولی کے متروکہ سٹوڈیو کے حصول کے لئے راتوں رات ایک فلم’’تیری یاد‘ ‘کا اعلان کردیا جو7 اگست 1948 کو ریلیز ہوئی۔ 1949 میں ہدایتکار نذیر کی ہندو کرداروں پر مشتمل پنجابی فلم ’پھیرے‘ پاکستان کی پہلی کامیاب فلم ثابت ہوئی جبکہ پہلی کامیاب اردو فلم ’دو آنسو‘ تھی جو 1950 میں ریلیز ہوئی۔ 1950ء میں ملکہ پکھراج لاہو رآگئیںجنہوں نے اس سٹوڈیو کو اپنے نام الاٹ کرایا ۔یہ سٹوڈیو کچھ عرصہ پرانے نام سے ہی چلایا جاتا رہا بعدازاں اس کا نام ملکہ سٹوڈیو رکھ دیا گیا۔1953ء میں یہ سٹوڈیو فلم کوآپریٹو لمیٹڈ کو ٹھیکہ پر دے دیا گیا مگر ایک سال بعد ہی یہ ادارہ دیوالیہ ہوگیا اور انتظام دوبارہ ملکہ پکھراج نے سنبھال لیا۔ پھر کراچی کے بزنس مین عزیز اللہ حسن نے کرائے پر لے کر اس کا نام ’’جاوداں سٹوڈیو‘‘ کر دیا جہاں انہوں نے ’’باجی‘‘،’’مہندی والے ہتھ‘‘ وغیرہ فلمیں پروڈیوس کیں اور دوسرے پروڈیوسرز بھی شوٹنگز کرتے رہے۔چار پانچ سال کے بعد عزیز اللہ حسن نےسٹوڈیوایک بار پھر ملکہ پکھراج کے حوالے کردیا۔جنہوں نے بعد میں اسے فروخت کردیا۔ خریدنے والوں نے اسے بند کرکے زمین فروخت کردی جہاں اب بنگلے بن چکے ہیں ۔قیام پاکستان سے پہلے مسلم ٹاؤن میں نہر کے کنارے پنچولی آرٹ سٹوڈیو نمبر2موجود تھا ۔ یہ جگہ فیروز حسن فدا حسین فیملی کی تھی۔ 1948ء میں محکمہ بحالیات سے بات چیت کرکے اسے ہدایتکار و پروڈیوسر نذیر نے حاصل کیا مگرکچھ عرصہ بعد نذیر نے یہ مالکان کے حوالے کردیاجسے 1953ء میں آغا جی اے گل کو کرائے پر دے دیا گیا ۔ آغا جی اے گل نے اسے حاصل کرکے اس کا نام ایورنیو اسٹوڈیو رکھ دیا۔انہوں نے فلمسازوں کو خام فلم کی سہولتیں فراہم کیں اور ذاتی فلمیں پروڈیوس کرنے لگے۔انہوں نے اس سٹوڈیو میں بننے والی فلم ’’دلابھٹی‘‘ کی آمدنی سے ملتان روڈ پر ایک قطعہ اراضی حاصل کرکے نئے سٹوڈیو کی تعمیر شروع کردی ۔ جس کا نام نیو ایورنیو سٹوڈیو رکھا گیا جب یہ سٹوڈیو چلا پڑا تو دو سال بعد اسے چھوڑ دیاجسے فلمساز باری ملک نے کرائے پرلے کر اس کا نام باری اسٹوڈیو رکھ دیا۔ انہوں نے یہاں ’’یکے والی ‘‘ اور ’’ماہی منڈا‘‘ جیسی کامیاب فلمیں بنائیں اور ملتان روڈ پر 100کنال زمین لے کر باری سٹوڈیو تعمیر کیا۔ باری ملک کے بعدیہ سٹوڈیو پروڈیوسر اشفاق ملک کے پاس آگیا جنہوں نے اس کا نام یوبی سٹوڈیو رکھا۔اشفاق ملک نے بھی تھوڑے ہی عرصہ بعد بند روڈ لاہور پر اپنی ذاتی زمین پر سٹوڈیو کی تعمیر شروع کردی ۔ اسی دوران یوبی سٹوڈیو کے مالکان کے درمیان جائیداد کی تقسیم کا مسئلہ کھڑا ہوا اور اس سٹوڈیو کا نصف حصہ ان کی بہن کےحصے میں آیا جہاں ارم سینما بنا دیاگیا۔ اشفاق ملک کے بعد یہ اسٹوڈیو پہلے تو پاسپورٹ آفس والوں کو کرائے پر دے دیا گیا اورپھر اس کے فلور اور سینما گرا کر کوٹھیاں تعمیر ہوگئیں اور یوں 1936کے دوران بننے والا یہ سٹوڈیو 1980ء میں مکمل طور پر ختم ہوگیا ۔ملتان روڈ پر پہلاسٹوڈیو 1945ء میں آر ایل شوری نے تعمیر کیا اور اس میں دو شوٹنگ فلور تعمیر کئے گئے۔ 1947ء میں یہ سٹوڈیو تباہ وبرباد ہوگیا۔ 1949ء میں اسے سید شوکت حسین رضوی اور ملکہ ترنم نورجہاں کو الاٹ کر دیا گیا، اس کا نام شاہ نور اسٹوڈیو رکھا گیا۔ فلمساز وہدایتکار شباب کیرانوی نے ملتان روڈ پر ایک خوبصورت شباب سٹوڈیو تعمیر کیا۔ جس میں دو شوٹنگ فلور‘ ایک رہائشگاہ ‘ آوٹ ڈور شوٹنگ کے لئے جھیل اور گاؤں بنایا گیا۔ 1971 ء میں فلمساز و ریکارڈسٹ اقبال شہزاد نے ملتان روڈ پر سنے ٹل سٹوڈیو بنایا ‘جو تین چارسال بعد ہی فروخت کردیا گیا۔ 1973ء میں ملتان روڈ پر منصورہ کے ساتھ اے چودھری ثناء اللہ نے ثنائی اسٹوڈیو تعمیر کرایا ‘جسے 1979ء میں جماعت اسلامی نے خرید کر یہاں اسلامی یونیورسٹی بنا دی۔ سکرین اینڈ ساونڈ اسٹوڈیو قیام پاکستان سے پہلے رحمان پورہ ‘ فیروز پور روڈ پر لیلا مندر اسٹوڈیو کے نام سے قائم تھا۔ یہ سٹوڈیو بھی1985 ء تک چلتا رہا اور بعدازاں اسے بند کردیا گیا۔ فلمساز وہدایتکار ڈبلیو زیڈ احمد نے وحدت روڈ کے قریب سٹوڈیو کی شروع کی تو ابھی اسٹوڈیو کی چھت نہیں پڑی تھی کہ فنڈ ختم ہوگئے البتہ اس کی لیبارٹری نے کام شروع کیا لیکن یہ بھی پانچ چھ سال بعد بند ہوگئی۔ سنے ٹل اسٹوڈیو ‘ سکرین اینڈ ساونڈ اسٹوڈیو‘ سٹی اسٹوڈیو‘ اے ایم سٹوڈیو اور ڈبلیو زیڈ سٹوڈیو تو فلم انڈسٹری کے عروج میں ہی اپنے انجام کو پہنچ گئے تھے ‘جن کے بند ہونے سے کوئی زیادہ فرق تو نہیں پڑا تھا کیونکہ زیادہ تر ایورنیو ‘ باری ‘شاہ نور اور شباب سٹوڈیوز میں ہی کام ہوتا تھا‘جہاں فلمساز کو دفتر اور فلم کی پروسیسنگ سمیت تمام سہولیات دستیاب تھیں۔ ان سٹوڈیوز میں بے شمار فلمیں بنیں۔مگر اب یہ بھی گوداموں‘ کالونیوں اور شادی ہالز میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔افسوسناک بات یہ ہے کہ تمام حکومتیں اس کو مسلسل نظر انداز کرتی چلی آرہی ہیں‘حالانکہ یہی وہ پاکستان فلم انڈسٹری ہے جس نے ایک وقت میں بھارتی فلموں کوبھی مات دی۔آج بھی بالی وڈ میں ہماری فلموں کے گانے اور کہانیاں کاپی ہورہی ہیں بلکہ اکیڈمیوں میں بھی یہ فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔حکومت ان سٹوڈیوز کو ثقافتی ورثہ قرار دے کر ان کو ختم ہونے سے بچانے کے لئے اقدامات کرے تاکہ آنے والی نسلوں کوان کے حوالے سے بتایا جا سکے۔ شروع کے زمانے کی کامیاب ترین فلم کا اعزاز فلم ’چن وے‘ کو حاصل ہوا جو فلم ساز شوکت حسین رضوی نے لاہور میں تیار کی تھی۔اگلے برس فلم ’دوپٹہ ‘کامیاب ثابت ہوئی۔ سبطین فضلی کی ہدایات میں بنی اس فلم نے بھارت میں بھی زبردست بزنس کیا ۔1950 کے عشرے میں ابھرنے والے اہم ترین ہدایتکار انور کمال پاشا تھے جنہوں نے ’قاتل‘ ’گمنام‘ ’سرفروش‘ اور ’چن ماہی‘ جیسی فلمیں بنائیں۔ جبکہ1972 سے 1996 تک کا زمانہ بجا طور پر ہماری فلموں کا دورِ سلطانی کہلا سکتا ہے۔1950 کا عشرہ فلم انڈسٹری کے لیے قدم جمانے کا عشرہ تھا اور لاہور کا فلمی مزاج ابھی بمبئی کے اثر سے آزاد نہ ہو سکا تھا۔ حتیٰ کہ اس عشرے کی بہترین فلم ’وعدہ‘ (ہدایتکار ڈبلیو زیڈ احمد) بھی اِن اثرات سے مبراّ نہ تھی۔پاکستان فلم انڈسٹری کو اس کا خاص مزاج1960کے عشرے میں حاصل ہوا جب ریاض شاہد اور خلیل قیصر جیسے مصنف اور ہدایتکار میدان میں آگئے اور ہمیں ’شہید‘ ’خاموش رہو‘ اور ’فرنگی‘ جیسی فلمیں دیکھنے کو ملیں۔1960کے عشرے میں کراچی بھی فلم سازی کے ایک اہم مرکز کے طور پر ابھرا۔ کمال اور زیبا کی ہلکی پھُلکی کامیڈی فلمیں اس دور کی خوبصورت یادگار ہیں۔بعد میں اسی شہر نے محمد علی، دیبا، کمال ایرانی، لہری اور نرالا جیسے فنکاروں کو پروان چڑھایا۔1965 میں بھارتی فلموں پر پابندی لگ جانے کے باعث جہاں پاکستانی انڈسٹری کو کاروباری طور پر زبردست بڑھاوا ملا وہیں مقابلے کی فضا ختم ہوجانے کے سبب معیار گرنے لگا۔کراچی کے بعد ڈھاکہ نے اُردو فلموں کی آبرو بچا رکھی تھی لیکن 1971 کے بعد مشرقی پاکستان اچانک بنگلہ دیش بن گیا اور یوں شبنم اور سبھاش دتّہ کے ساتھ شروع ہونے والا ارود فلموں کا مختصر دور اپنے اختتام کو پہنچا۔ تاہم اس دور نے ہمیں ندیم اور شبنم جیسے فنکار اور روبن گھوش جیسے موسیقار فراہم کیے جو سال ہا سال تک ہماری فلمی صنعت کا سرمایہ رہے۔سلطان راہی نے اپنی اچانک موت تک 500 سے زیادہ فلموں میں کام کیا تھا اور موت کے وقت ان کی 54 فلمیں زیرِ تکمیل تھیں، جوکہ ہر لحاظ سے ایک عالمی ریکارڈ ہے۔ سلطان راہی کی فلم ’مولا جٹ‘ نے بھی کئی ریکارڈ قائم کئے۔ یہ لاہور میں مجموعی طور پر تین سو دس ہفتے چلی اور اگر بین نہ کردی جاتی تو یقیناً مرکزی تھیٹر ہی میں پانچ سال تک چلتی رہتی اور یوں بھارتی فلم ’شعلے‘ کا ریکارڈ برابر کر دیتی۔ لیکن ایک سنسر شدہ منظر کے فلم میں دوبارہ شامل کیے جانے کے الزام میں اس فلم کی نمائش روک دی گئی۔سلطان راہی کا دور 1972 سے لیکر 1996 تک کی رُبع صدی پر چھایا ہوا تھا اور ان کی موت کے ساتھ ہی فلم انڈسٹری کی بھی کمر ٹوٹ گئی۔لاہور میں اس وقت بھی اگر فلم سٹوڈیوز کی طرف توجہ دی جائے تو یہاں پر وہ تمام سہولیات میسر آ سکتی ہیں جو فلم میکنگ میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔اس کیلئے ضروری ہے کہ یہاں پر حکومتی سرپرستی میں پروفیشنل پروڈیوسرز سامنے آئیں اور فلموں کے معیار کو بلند کریں ۔
تبصرے بند ہیں.