احمد رشدی نے صرف وحید مراد کے لیے150 گیت گائے

لاہور: احمد رشدی پاکستان کی فلمی تاریخ کا اتنا بڑا نام ہے کہ جس کے ذکر کے بغیر فلمی گائیکی کی تاریخ کبھی مکمل نہیں ہوسکتی۔ 60ء کے عشرے میں ہر دوسری یا تیسری فلم میں ان کے گیت لازمی ہوتے تھے۔اس دور میں وہ نوجوان فلم بینوں کے سب سے مقبول ترین گلوکار تھے اور تقریبا ہر قسم کے گیت گانے میں ماہر تھے ، لیکن شوخ وچنچل، چھیڑ چھار کرنیوالے کامیڈی اور پیروڈی گیت گانے میں لاثانی تھے۔ احمد رشدی کو پاکستان کا پہلا پاپ گلوکار بھی کہا جاتا ہے ۔ انھیں اردو فلموں میں سب سے زیادہ گیت گانے کااعزاز بھی حاصل ہے، جب کہ وحید مراد کے لیے ڈیڑھ سو کے قریب گیت گائے جو ایک منفرد ریکارڈ ہے۔ ایک کیلنڈر ائیر میں سب سے زیادہ گیت گانے، موسیقار ایم اشرف کی دھنوں میں سو سے زائد گیت گانے اور گلوکارہ مالا کے ساتھ سینچری پارٹنر شپ کے اعزازات بھی رکھتے ہیں ۔ احمد رشدی نے پہلی ہی بار کسی پاکستانی فلم کے لیے ایک انگریزی گیت بھی گایا تھا۔ بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہوگا کہ پاکستان کے قومی ترانہ گانیوالے دس گلوکاروں میں ایک نام احمد رشدی کا بھی تھا جو ان دنوں نئے نئے پاکستان ہجرت کرکے آئے تھے۔ حیدر آٓباد دکن کے سید گھرانے سے تعلق رکھنے والے احمد رشدی کی پیدائش 1934 ء میں ہوئی تھی اور بچپن ہی سے گائیکی کا شوق رکھتے تھے ۔ کلاسیکل موسیقی سے عدم واقفیت کے باوجود اتنے خوش گلو تھے کہ ان کی آواز کو موسیقار ہر رنگ میں ڈھال لیتے تھے اور وہ مشکل سے مشکل ترین گیت بھی بڑی آسانی سے گالیتے تھے۔ 1954ء میں ریڈیو پاکستان کراچی سے منسلک ہوئے اور خاص طور پر بچوں کے پروگرام میں ان کے گیت بڑے مقبول ہوئے اپنے پہلے مشہور زمانہ ریڈیو گیت ’’بند روڈ سے کیماڑی، میری چلی ری گھوڑا گاڑی ، بابو ہوجانافٹ پر ‘‘ سے بے پناہ شہرت حاصل کی جو انھیں فلموں میں بھی لے آئی۔ فلم ’’کارنامہ‘‘ میں پہلی بار گایا لیکن فلم ’’انوکھی‘‘ پہلے ریلیز ہوگئی تھی جس میں ایک کامیڈی گیت ’’ماری لیلی نے ایسی کٹار‘‘ جو لہری پر فلمایا گیا تھا۔ احمد رشدی کو فلمی گلوکار بننے کے لیے خاصی جدوجہد کرنا پڑی جس کی ایک وجہ ابتدائی دور میں کراچی کی فلموں میں گانا تھا، لیکن جب 1961ء میں لاہور کی فلم ’’سپیرن‘‘ میں منظور اشرف کی دھن پر ’’چاند سا مکھڑا گورا بدن ‘‘ ان کی ملک گیر پہچان بن گیا تو اگلے سال فلم ’’مہتاب‘‘ کا سدابہار شوخ وچنچل گیت ’’گول گپے والا آیا ، گول گپے والا ‘‘ نے انھیں صف اول کا گلوکار بنادیا۔ پھر انھوں نے اگلے سولہ سال تک پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ان کی آخری فلم 1985ء میں ’’ہیرو‘‘ تھی ۔ احمد رشدی کے طویل اور تابناک فلمی کیرئیر میں ایک کمزور پہلو پنجابی فلموں میں کامیابی حاصل نہ کرسکے ۔ احمد رشدی کو اداکاری کا بھی شوق تھا اور انھوں نے ایک درجن کے قریب فلموں میں ثانوی کرداروں میں بھی کام کیا مگر اس میں انھیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی ۔پاکستانی فلمی گائیکی پرانمٹ نقوش چھوڑنے والے احمد رشدی اپنی آخری عمر میں خرابی صحت کی بناء پر گانا نہیں گاسکتے تھے لیکن گزر اوقات کے لیے میوزک کمپوز کرنے لگے اور گیارہ اپریل 1983ء کو کسمپرسی کی حالت میں انتقال گرگئے

تبصرے بند ہیں.