کسی کا سر، کسی دھڑ،انسانی سر کا ٹرانسپلانٹ اب ناممکن نہیں

ایک اطالوی سائنس داں نے انسانی سر ٹرانسپلانٹ کرنے کی صلاحیت رکھنے کا دعوی کیا ہے۔ برطانوی اخبارٹیلی گراف کے مطابق طبی جریدے سرجیکل نیورولوجی انٹرنیشنل میں شائع ہونے تحقیقی مقالے میں اٹلی سے تعلق رکھنے والے سائنس داں ڈاکٹر سرجیو کینا ویرو(Dr. Sergio Canavero)نے کہا ہے کہ وہ فرینکین اسٹین اسٹائل(یہ تجربہ 1970میں بندر پرکیاگیا تھا) کے طریقۂ کار پر عمل کرتے ہوئے ایک انسان کے سر کو دوسرے انسان کے سر پرمنتقل کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے اس خیال پر عمل درآمد کرنا ممکن نہیں تھا تاہم جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اب ہم اس ٹرانسپلانٹ کے قابل ہوگئے ہیں اور ریڑھ کی ہڈی (اسپائنل کارڈ) کودوسرے انسان کے جسم سے دوبارہ جوڑ سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ1970 میںڈاکٹر رابرٹ وائٹ نے ایک بندر کے سر کو دوسرے بندر کے سر پر منتقل کیا تھا اور وہ بندر بنا کسی پیچیدگی کے 8دن تک زندہ رہاتھا۔ ہم اسی طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے انسانی سر کا ٹرانسپلانٹ کرسکتے ہیں۔ انہوں نے سرجری کے طریقہ کار کو وضح کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب سے پہلے عطیہ دینے اور لینے والے افرادکو 54.6 سے59ڈگری فارن ہائیٹ درجہ حرارت والے کمرے میں رکھے گے اور اسپائنل کارڈ عطیہ کرنے اور وصول کرنے والے دونوں افراد کے سروں کو ایک ساتھ ہی الگ کر کے آدھے گھنٹے میں دوبارہ جوڑ دیا جائے گا۔ تاہم 36 گھنٹوں پر مشتمل یہ ٹرانسپلانٹ کرنے کے لیے 100ماہرین پر مشتمل ٹیم اور ساڑھے آٹھ لاکھ پائونڈ خرچ ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بات اب سائنس فکشن نہیں بلکہ حقیقت ہے اور یقیناًاس طرح لوگ کچھ عرصے مزید زندہ رہ سکتے ہیں۔ جب کہ اس سے بہت سی مہلک بیماریوں پر قابو پانے میں بھی مدد ملے گی۔ دوسری جانب طبی حلقوں کی جانب سے ڈاکٹر سرجیو کی اس تجویزکو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ برٹش ٹرانسپلانٹیشن ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر انتھونی وارینز کا کہنا ہے کہ انسانی سر کا ٹرانسپلانٹ کرنا آج کے دور میں بے وقعت ہے اور یہ خیال ہی بہت عجیب ہے۔ جب کہ اسکاٹش کونسل آن ہیومن بائیو ایتھکس کے ڈاکٹر کلوم میک کیلر کا کہنا ہے کہ یہ خیال کسی ڈرائونی فلم کے لگتا ہے۔ دوسری جانب1970 میں ڈاکٹر رابرٹ وائٹ کی ٹیم میں شامل ڈاکٹر جیری سلور نے کہا ہے کہ یہ تجربہ کرنا غیر اخلاقی اور سائنس کا غلط استعمال ہے اسے کبھی نہیں ہونا چاہیے۔

تبصرے بند ہیں.