موسیقار نذیر علی کی تیار دھمالیں ہر دور میں مقبول ہوئیں

لاہور: پاکستانی فلم انڈسٹری کے پاس اعلیٰ پائے کے فنکار رہے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے دور میں اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر بڑا نام کمایا تھا۔ ایسے ہی قابل فخر اور قابل رشک فنکاروں میں موسیقار نذیر علی کا نام بھی آتا ہے۔جن کے کریڈٹ پر بے شمار سپرہٹ گیت ہیں، انھیںفلمی دھمال کا موجد قرار دیا جاتا ہے ، ان کی بنائی ہوئی دھمالیں ہر دور میں پسند کی گئیں ۔موسیقار نذیر علی ایک مدت تک ساٹھ کے عشرہ کے معروف موسیقار جوڑی ایم اشرف اور ماسٹر نذیر کے ساتھ معاون رہے تھے ۔ موسیقار نذیر نے اپنے چار عشروں کے فلمی کیرئیر میں ڈیڑھ سو کے قریب فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی جن میں چالیس کے قریب اردو اور باقی سبھی پنجابی فلمیں تھیں ۔ انھوں نے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز ایک میوزیشن (ڈھولک نواز) کے طور پر کیا اور وہ کافی دیر تک موسیقار ایم اشرف کے ساتھ بطور میوزیشن ڈھولک بجاتے رہے ۔1969میں انھوں فلم ’’پیداگیر ‘‘سے بطور میوزک ڈائرکٹر اپنے کیرئیر کاآغاز کیا ۔ان کے ابتدائی دور کی فلم ’’جنٹر مین‘‘ ان کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔ فلمساز و ہدائتکار اسد بخاری کی فلم ’’دلاں دے سودے‘‘میں ان کی بنائی ہوئی دھمال ’’لعل میری پت رکھیو بلا جھولے لعلن‘‘ نے ان کو فلم انڈسٹری کے بڑے موسیقاروں کی صف میں لا کھڑا کیا ۔اس فلم میں ان کی بنائی ہوئی دھمال ’’حسینی لعل قلندر ، میرے غم ٹال قلندر‘‘ کو ملک گیر شہرت ملی جس کے بعد انھوں نے درجنوں فلموں میں دھمالوں کی موسیقی ترتیب دی ، ان کی بنائی ہوئی ہر دھمال کو عوامی پذیرائی نصیب ہوئی۔جن میں ’’شہباز کرے پرواز‘‘، ’’اسی آن قلندری دیوانے لج پال دے‘‘، ’’حسینی لعل قلندر میرے غم ٹال قلندر‘‘ ، ’’بری بری امام بری ، میری کھوٹی قسمت کرو کھری‘‘، ’’سجنوں ایہہ نگری داتا دی‘‘ کے علاوہ کئی دوسری دھمالیں شامل ہیں۔

تبصرے بند ہیں.