لندن:موت کیسے آتی ہے اور اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟ اس حوالے سے مختلف مذاہب کے ماننے والے مختلف عقائد رکھتے ہیں۔ سائنسی اعتبار سے اس موضوع پر کچھ زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں تاہم اب ایک ماہر ڈاکٹر نے اس حوالے سے کچھ حیران کن انکشافات کیے ہیں۔یونیورسٹی آف لیورپول سے وابستہ اس ڈاکٹر کا نام سیموس کوئیل ہے جو سینکڑوں مریضوں کو موت کے منہ میں جاتے دیکھ چکا ہے۔دی کنورسیشن کے لیے لکھے گئے آرٹیکل میں سیموس کوئیل نے بتایا ہے کہ جب آدمی کا دل حتمی طور پر دھڑکنا بند کرتا ہے اور اس کی موت واقع ہوتی ہے، اس کی موت کا پراسیس اس سے 2ہفتے پہلے سے شروع ہو چکا ہوتا ہے۔ ان دو ہفتوں کے دوران مریضوں کی حالت زیادہ خراب رہنے لگی ہے۔ عام طور پر انہیں چلنے مشکل پیش آنے لگتی ہے اور وہ زیادہ سونے لگتے ہیں۔سیموس کوئیل لکھتے ہیں کہ ”زندگی کے آخری دنوں میں لوگوں کی گولیاں نگلنے، خوراک چبانے اور مشروب پینے کی صلاحیت ختم ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ہم کہتے ہیں کہ اب مریض مرنا شروع ہو گیا ہے۔ اس کے بعد مریض عموماً دو سے تین دن مزید زندہ رہتا ہے۔ تاہم کچھ لوگ اس حالت کو پہنچ کر اسی دن مر جاتے ہیں۔“سیموس نے لکھا ہے کہ ”حتمی موت کے وقت انسان کے ساتھ کیا ہوتا ہے، اسے ضبط تحریر میں لانا مشکل ہے تاہم میں اتنا بتا سکتا ہوں کہ اس وقت مریض کے جسم میں سٹریس کیمیکلز بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ یہ وہ کیمیکلز ہوتے ہیں جو اس وقت زیادہ پیدا ہوتے ہیں جب جسم کسی انفیکشن کے خلاف لڑ رہا ہو۔ اس پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ موت کے وقت یہ کیمیکلز اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ موت کے پراسیس کی تکلیف کو کم کیا جا سکے۔“سیموس نے کہا کہ ”ہر شخص کی موت مختلف ہوتی ہے اور یہ بتانا ممکن نہیں کہ کس شخص کی موت پرسکون ہو گی اور کس کی تکلیف دہ۔ “
تبصرے بند ہیں.