کیکڑوں کے خول سے مؤثر بیٹریاں بنائی جا سکتی ہیں

بیجنگ: سائنسداں ایک عرصے سے کیکڑوں اور جھینگوں کے بیرونی خول سے مفید اجزا اور طبی اشیا بنا کر استعمال کر رہے ہیں۔ اب انکشاف ہوا ہے کہ اسی کیکڑے کے بیرونی خول کا اہم جزو کائٹوسین بیٹری سازی میں بہت مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔کائٹوسین پولی سیکرائڈز پولیمر ہوتے ہیں جو کیڑوں سے لے کر کئی سمندری مخلوقات کے بیرونی خول کی تشکیل کرتے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق اس کائٹوسین سے سخت کاربن کشید کرکے ری چارج ہونے والی سوڈیئم بیٹری کے سرکٹ اور اینوڈ بنائے جاسکتے ہیں۔ یوں لیتھیئم بیٹری کا متبادل بھی مل سکتا ہے۔کیکڑے کے خول سے خالص کائٹوسین نکال کر اگر اسے 538 درجے سینٹی گریڈ پر گرم کیا جائے تو وہ کاربن میں بدل جاتا ہے۔ اب اگر اسے ٹِن سلفائیڈ یا آئرن سلفائیڈ میں ملایا جائے تو اسے سوڈیئم آئن بیٹری کے اینوڈ یا مثبت برقیرے (الیکٹروڈ) میں ڈھالا جاسکتا ہے۔چین میں شینڈونگ فرسٹ میڈیکل یونیورسٹی سے وابستہ یُن چن اور ان کے ساتھیوں نے یہ تحقیق کی ہے۔ ا نکے مطابق اسے لیتھیئم آئن بیٹریوں کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ کیکڑا کاربن نفوذپذیراور ریشے دار ہوتا ہے۔ یہ ایک وسیع رقبے پر پھیل کر بہتر اینوڈ بناسکتا ہے۔ اس بنا پرایک تجرباتی بیٹری بنائی گئی ہے جو ٹن اور فولاد پرمبنی ہے اور کم ازکم 200 مرتبہ چارج ہوسکتی ہے۔واضح رہے کہ دنیا بھر میں لیتھیئم کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں کیونکہ اسمارٹ فون سے لے کر گاڑیوں تک کی بیٹریوں میں یہی معدن دھڑادھڑ استعمال ہورہی ہے۔ اس تناظر میں کائٹوسین کی بیٹری ماحول دوست اور کم خرچ متبادل بن سکتی ہے۔

تبصرے بند ہیں.