مسرت نذیر کو فلم ’’پتن‘‘کی کامیابی نے مقبول اداکارہ بنادیا

لاہور: مسرت نذیر پاکستان فلم انڈسٹری کی وہ لیجنڈ گلوکارہ وادا کارہ ہیں جنھوں نے دونوں شعبوں میں اپنی انفرادیت کو ثابت کیا بلکہ پنجابی فلموں کی پہلی مقبول ترین جٹی ہونے کا منفرداعزاز بھی انھیں حاصل ہے۔ 1955ء میںانور کمال پاشا کی فلم ’’قاتل‘‘ میں چاندنی کے نام سے کیرئیر شروع کیا ۔ جس میں ان کی پرفارمنس کو دیکھتے ہوئے معروف مکالمہ نویس اور شاعر بابا عالم سیاہ پوش کے مشورے پر فلمساز شیخ لطیف نے اسے پنجابی فلم ’’پتن‘‘ میں سنتوش کمار کے مقابل ہیروئن سائن کرلیا ، جس کے ڈائریکٹر لقمان تھے۔ یہ فلم سپرہٹ ہوگئی اور اس میں چاندنی کی بجائے اصلی نام مسرت نذیر سے کام کیا ۔ مسرت نذیر کا تعلق لاہور کی کشمیر برادری کے ایک متوسط گھرانے سے ہے ان کے والد خواجہ نذیر احمدمیونسپل کارپوریشن کے رجسٹرد ٹھیکیدار تھے۔ ان کے والدین اسے محدود وسائل کے باوجود لیڈی ڈاکٹر بنانے کے خواہشمند تھے، کنیئرڈ کالج میں ابھی انٹرمیڈیٹ میں ہی تھیں کہ نغمہ گوئی کا شوق اسے ریڈیو تک لے آیا۔ ریڈیو سے معقول معاوضہ نہ ملنے کے باعث اس نے فلموں میں پلے بیک سنگر کا ارادہ کرتے ہوئے فلم انڈسٹری کا رخ کرلیا ، جہاں انور کمال پاشا کی جوہر شناس نگاہوں نے گائیکی کے بجائے اداکاری کی آفر کردی ، مگر والدین کی اجازت کے بغیروہ کام نہیں کرسکتی تھی۔ جس پر انور کمال پاشا نے اس کے والد خواجہ نذیر احمد سے خود مل کر انھیں رضا مند کرلیا۔پنجابی فلم ’’پتن‘‘کی شاندار کامیابی نے اس پر فلمی انڈسٹری کے دروازے کھول دئیے اور انھیں مقبول اداکارہ بنادیا ۔باری ملک کی ماہی منڈا اور یکے والی جیسی سپرہٹ فلموں سے قبل پنجابی فلم ’’پاٹے خان‘‘ میں بھی اسلم پرویز اور ملکہ ترنم نورجہاں کے مقابل اہم کردار کیا تھا۔ انھوں نے ’’پینگاں‘‘ ، ’’قسمت ‘‘ ، ’’نیا زمانہ‘‘ ، ’’ چٹی یا جٹی‘‘ ، ’’سوسائٹی‘‘ ، ’’باغی‘‘ ، ’’جان بہار‘‘ ، ’’یار بیلی‘‘ ، ’’کرتار سنگھ‘‘ ، ’’زہر عشق‘‘ ، ’’آنکھ کانشہ‘‘ ، ’’شہید‘‘، ’’وطن‘‘، ’’راز‘‘، ’’سولہ آنے‘‘، ’’اسٹریٹ 77‘‘،’’گڈا گڈی‘‘، ’’سیستان‘‘ ، ’’سہار، ’’رخسانہ‘‘، ’’نوکری‘‘ ، ’’باپ کا گناہ‘‘ ، ’’ٹھنڈی سڑک‘‘، ’’پلکاں‘‘، ’’سہتی‘‘ ، ’’مرزا صاحباں‘‘ ، ’’جھومر‘‘، ’’عشق پر زور نہیں‘‘، ’’منگول‘‘ ، ’’مفت بر‘‘ ، ’’گلفام ‘‘ سمیت دیگر فلموں میں کام کیا۔ سیالکوٹ کے سینما لالہ زار کے مالک اور تاجر شیخ مجید کے صاحبزادے ارشدمجید سے شادی کرکے کینیڈا چلی گئیں۔ شادی کے بعد اداکاری تو ترک کردی مگر گلوکاری کا دیرینہ شوق جاری رکھا ۔ان کے کریڈٹ پر ’’میرا لونگ گواچا‘‘ ، ’’چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر ‘‘، ’’لٹھے دی چادر اتے سلیٹی رنگ ماہیا‘‘ ، ’’چٹا کوکٹر بنڑے تے ‘‘ جیسے گانے ہیں ۔’ میرا لونگ گواچا ‘تو اتنا سپرہٹ ہوا تھا کہ پاکستان کی متعدد فلموں میں اس گانے کو اداکارہ انجمن پر فلمایا گیا ۔ یہ گانا آج بھی شادی بیاہ کی تقریبات کا حصہ ہے جس میں روایتی پنجابی ثقافت نمایاں نظر آتی ہے۔ مسرت نذیر جو ان دنوں کینیڈا میں ہی اپنے تین شادی شدہ بچوں اور شوہر کے ساتھ خوش وخرم زندگی گزار رہی ہیں ۔

تبصرے بند ہیں.