لہری کی حس مزاح نے فلم بینوں کو گرویدہ بنالیا

لاہور: پاکستان فلم انڈسٹری کو کامیڈی کے حوالے سے بالی وڈ پر برتری حاصل رہی ہے، جس کا وہ برملا اعتراف بھی کرتے ہیں ۔ اداکار لہری جن کی حس مزاح اور کردار کی مطابقت سے پرفارمنس فلم بینوں کو گرویدہ بنا دیتی تھی۔ سفیر اللہ صدیقی المعروف لہری 2جنوری 1929ء کو بھارت کے شہر کانپور میں پیدا ہوئے ۔ تقسیم کے بعد پاکستان آئے اور کراچی میں قیام کیا اور جہاں پر ذریعہ معاش کے لیے مختلف کام کیے۔ انھوں نے فلمی کیرئیر کا آغاز 50کی دہائی میں کیا جو 30سال تک جاری رہا۔لہری نے نگار فلمی ایوارڈ سمیت درجنوں ایوارڈ حاصل کیے، ان کی آخری فلم ’’دھنک‘‘1986 میں ریلیز ہوئی۔لہری فلمی صنعت کے بزرگ ترین فن کار تھے، انھیں مرحوم کامیڈی اداکار یعقوب کا جانشین قرار دیا جاتا تھا ۔ خوبصورت، برجستہ اور چبھتے ہوئے جملوں سے طنز و مزاح پیدا کرنا اور پھر انتہائی کامیابی سے ادا کرنا لہری کا کمال تھا۔ لہری ہجرت کرکے پاکستان تشریف لائے،روزگار کے لیے سرگرم ہوئے، محنت سے شب و روز بسر کیے، شارٹ ہینڈ سیکھی اور کئی فرمز و سرکاری محکموں میں سٹینو ٹائپسٹ کی ملازمت اختیار کی، جب کہ شام کے فار غ اوقات میں کراچی کے علاقے صدر میں ہوزری کی اشیا بھی بیچیں۔ 1955 میں لچھو سیٹھ شیخ لطیف فلم ایکسچینج والے نے ایک فلم ’’انوکھی‘‘ بنانے کا اعلان کیا ‘جس میں ہیروئن کا کردار ادا کرنے کے لیے ان کی بھانجی شیلا رمانی بھارت سے پاکستان تشریف لائیں اس طرح سفیر اللہ (لہری) کو اس فلم میں اپنی خداد داد صلاحیتوں کو پردہ سیمیں پر پیش کرنے کا موقع ملا اور ان کی یہ پہلی فلم 1956 کے اوائل میں نمائش کے لیے پیش کردی گئیلہری نے اپنے منفرد اسلوب سے بہت جلد ترقی کی منازل طے کیں، دیکھتے ہی دیکھتے وہ شہرت اور مقبولیت کے اس مقام پر پہنچ گئے جس کا انھوں نے چند سال قبل تصور بھی نہ کیا تھا۔ منور ظریف، نذر اور آصف جاہ کے بعد لہری کے لیے فلم انڈسٹری میں اپنے لیے جگہ بنانا کسی معرکے سے کم نہ تھا۔ ’’انسان بدلتا ہے‘‘، ’’رات کے راہی‘‘، ’’فیصلہ‘‘ ، ’’جوکر‘‘، ’’آگ‘‘ ، ’’تم ملے پیار ملا‘‘، ’’بہادر‘‘، ’’نوکر‘‘، ’’بہاریں پھر بھی آئیں گی‘‘، ’’افشاں‘‘ اور ’’رم جھم‘‘ سمیت کم و بیش سوا دو سو فلموں میں کام کیا۔ لہری پر سب سے پہلے 1985 میں بیرون ملک فلم کی شوٹنگ کے دوران فالج کا اٹیک ہوا، پھر قوت بینائی میں کمی آنے لگی، اس طرح وہ فلمی دنیا سے آہستہ آہستہ کنارہ کش ہوتے چلے گئے۔ لہری پہلے پاکستانی کامیڈین ہیں جنہوں نے بڑے ایوارڈ نگار سب سے زیادہ حاصل کیے، ان کا آخری ایوارڈ بھی نگار ایوارڈ تھا جو 1993 میں دیا گیا۔ لہری پاکستان فلم انڈسٹری کے وہ واحد مزاحیہ فنکار تھے جن کے زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لاکھوں پرستار موجود تھے، ہیں اور رہیں گے۔ ان کی زندگی کے آخری ایام میں اداکار معین اختر نے ان کی بڑی دیکھ بھال کی۔وہ 13ستمبر 2012ء کو طویل علالت کے بعد کراچی میں انتقال کر گئے۔ مرحوم پھیپھڑوں اور گردے کے عارضہ میں مبتلا تھے ۔ 1983ء میں سری لنکا میں فلم ’’نادانی‘‘ کی شوٹنگ کے دوران ان پر پہلی بار فالج کا حملہ ہوا تھا

تبصرے بند ہیں.