استعمال سے زائد زمین ریاست کی ملکیت ہوگی، سپریم کورٹ

اسلام آباد: چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے ملک میں نجی ملکیت میں سیکڑوں کلو میٹر پر پھیلی ہوئی زمینیں ہیںجن کو سیراب کرنے کیلیے پانی بھی موجود ہے لیکن اس کے باوجودیہ زمینیں بنجرپڑی ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاہے کہ استعمال سے زائدزمین ریاست کی ملکیت تصورہوگی۔ جبکہ سپریم کورٹ نے گاڑیوں میںناقص سی این جی سلنڈرلگانے والوںاوران فٹ گاڑیوں کیخلاف کاروائی نہ کرنے پرسخت برہمی کا اظہارکیا ہے اوراس بارے وضاحت کیلیے چیئرمیںاوگرا کو طلب کرلیا ہے۔گزشتہ روز زرعی اصلاحات کے قانون کو کالعدم کیے جانے کے بارے میں شریعت عدالت کے فیصلے کااز سرنو جائزہ لینے کیلیے دائرورکرز پارٹی کی آئینی پٹیشن کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگرسپریم کورٹ نے شریعت عدالت کے فیصلے کو کالعدم کردیاتو اس کے نتیجے میںبڑے بڑے زمینداراورجاگیرداران زمینوںسے محروم ہوجائیں گے جو انھیںاس فیصلے کے بعد واپس ملی تھیں۔ 9 رکنی لارجربینچ نے کیس کی سماعت شروع کی تو اٹارنی جنرل نے وزارت قانون کی طرف سے جواب جمع کیا جواب میں موقف اپنایا گیا تھا کہ اس جواب کو وفاقی حکومت کاجواب تصورنہ کیاجائے اورجب چنددن بعدمنتخب حکومت معاملات سنبھالے تو اس سے موقف حاصل کیاجائے تاہم جواب میںکہاگیاتھاکہ سیکریٹری قانون کی رائے کے مطابق 22سال پہلے شریعت عدالت نے زرعی اصلاحات کے قانون کے بارے جو فیصلہ دیاتھا۔سپریم کورٹ اب بھی اس کادوبارہ جائزہ لے سکتی ہے اورزیرغورآئینی پٹیشن قابل سماعت ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وازرت قانون کی رائے کے بعداس کیس کی اہمیت بہت اہم ہو چکی ہے کیونکہ اگرمقدمے کافیصلہ درخواست گزارکے حق میںآیاتو اس سے ملک کے بڑے بڑے زمینداراورجاگیردارمتاثرہوںگے اورانھیںوہ زمینیںواپس کرناہو گی جو قزلباش کیس میںشریعت اپیلیٹ بینچ کے فیصلے کے بعدانھیںملی تھیں۔جسٹس اعجاز احمدچوہدری نے کہا کہ شریعت عدالت نے اسلامی اصولوںکی روشنی میںکیس کافیصلہ کیاہے۔ عابدمنٹو کاکہناتھاوہ اس کیس کو اسلام نہیںبلکہ آئین کے پیرامیٹرپرپیش کرنا چاہتے ہیں ۔ وفاقی شریعت عدالت نے اپنے دائرہ اختیارسے تجاوز کیاہے اورشریعت اپیلیٹ بینچ نے اس کی توثیق کی ہے۔ انھوںنے کہاکہ زرعی اصلاحات کے قانون مجریہ 1972کو آئین کے آرٹیکل269میںتحفظ حاصل تھالیکن شریعت عدالت نے اس قانون کو کالعدم کردیا۔ فاضل وکیل کاکہناتھاکہ شریعت عدالت کو آئین کی تشریح کا اختیارنہیںاب غلطی کو درست کرناسپریم کورٹ کی آئینی ذمے داری ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آئین بالادست ہے اورسپریم کورٹ آئین کامحافظ ہے۔ جہاںآئین کے منافی عمل ہوگااس کی نشاندہی اورتشریح کرناعدالت کادائرہ اختیارہے۔ جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہا1973کااصل آئین جمہوریت اوراسلام کاحسین امتزاج ہے۔ عابدمنٹو نے کہاشریعت عدالت نے آئین کی شق 253کاراستہ روکاہواہے رکاوٹ ختم کرناسپریم کورٹ کی ذمے داری ہے۔ چیف جسٹس نے کہازرعی اصلاحات کے قانون میںلکھاتھاکہ اسکااطلاق بلوچستان کے ضلع کیچ اورسبی پر نہیں ہوگا ۔ قانون سب کے لیے یکساںہو تاہے۔ منظور نظر افراد کے لیے نہیںہوتا۔چیف جسٹس کی سربراہی میںتین رکنی بنچ نے سانحہ گجرات میںمعصوم بچوںکے جاںبحق ہونے کے بارے ازخود نوٹس کے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے چیئرمین اوگرا کو طلب کرلیا ہے اورہدایت کی ہے کہ وہ گاڑیوںمیںسی این جی سلنڈرکی چیکنگ اورفٹنس سرٹیفکیٹ کے حوالے سے جامع رپورٹ دیں۔ مزید سماعت آج (جمعرات) تک ملتوی کر دی گئی۔

تبصرے بند ہیں.