‘پلی بارگین اعتراض جرم، سزا قانون سازی کے ذریعے کس طرح ختم ہوسکتی ہے؟’جسٹس اعجاز الاحسن

نیب نے گزشتہ 21 سال کے دوران ہوئی پلی بارگین کی تفصیلات سپریم کورٹ میں جمع کرا دیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ ترمیم سے لگتا ہے 49 کروڑ تک کی کرپشن ٹھیک، اس سے زیادہ غلط ہے، پلی بارگین اعتراض جرم ہوتا ہے، عدالت کی جانب سے دی گئی سزا قانون سازی کے ذریعے کس طرح ختم ہوسکتی ہے؟۔نیب ترامیم کیخلاف پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی۔دوران سماعت عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ نیب ترمیم کے تحت جرم اور سزا دونوں ہی ختم ہوجائیں گے، دباؤ کا الزام لگنے پر پلی بارگین منسوخ ہوجائے گی اور جمع رقم بھی واپس کرنا ہوگی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پلی بارگین اعتراف جرم ہوتا ہے جس کی سزا میں عدالت پیسے واپس کرنے کی منظوری دیتی ہے، عدالت کی سزا قانون سازی سے کیسے ختم ہوسکتی ہے؟ صدر بھی رحم کی اپیل میں سزا معاف کر سکتے ہیں لیکن جرم ختم نہیں ہوتا۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ پلی بارگین جرم کی بنیاد ہے، وہ ختم ہو جائے تو جرم کیسے برقرار رہے گا؟ قاتل کا جرم ختم ہو سکتا ہے تو بدعنوانی کے ملزم کا کیوں نہیں؟۔وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کابینہ اور دیگر فورمز کیساتھ وزراء اور معاونین خصوصی کو بھی استثنیٰ دیدیا گیا، ترامیم کا اطلاق بیرون ملک اثاثوں پر بھی ہوگا، کرپٹ ملزمان کو بچانے کیلئے ترامیم کے ذریعے پورا بندوبست کیا گیا ہے۔عدالت کے استفسار پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ اب تک تعداد 280 مقدمات واپس آ چکے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نئے قانون کے مطابق احتساب عدالت اور نیب ہاتھ کھڑے کردے گی۔حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ کچھ کریڈٹ گزشتہ حکومت کو بھی جاتا ہے، پی ٹی آئی حکومت خود اس عمل میں شامل رہی اور پھر چیلنج کر دیا،عدالت نے کیس کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔

تبصرے بند ہیں.