بعد ازاں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ نے اسے اب تک کا سفید ترین پینٹ قرار دیا تھا۔
یہ پینٹ 98.1 فیصد سولر ریڈ ایشن کو ریفلیکٹ کرسکتا ہے جبکہ انفراریڈ حرارت کو بھی خارج کرتا ہے۔
چونکہ یہ پینٹ سورج کی حرارت کو اخراج کے مقابلے میں بہت کم جذب کرتا ہے تو اس کے نیچے موجود سطح بجلی کے بغیر ہی ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔
اس سفید پینٹ سے ایک ہزار اسکوائر فٹ رقبے کو کور کرنے سے اتنی کولنگ ہوتی ہے جو 10 کلو واٹس پاور کے برابر سمجھی جاسکتی ہے۔
مگراب پورڈیو یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے اسے کچھ پتلا کردیا ہے جس کے بعد یہ پینٹ گاڑیوں، طیاروں، ٹرینوں کے ساتھ ساتھ ٹی شرٹس پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اس کے نتیجے میں یہ مصنوعات سورج کی روشنی کو منعکس کرکے ائیرکنڈیشننگ کی ضرورت کو کم کردیں گی۔
محققین کے مطابق اس سے نہ صرف پیسوں کی بچت ہوگی بلکہ توانائی کا استعمال بھی کم ہوجائے گا، جس سے موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والی گرین ہاؤس گیسز کا اخراج بھی گھٹ جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ کولنگ کے دیگر طریقوں کے برعکس یہ پینٹ حرارت کو خلا میں منتشر کردیتی ہے جس سے بھی ہمارا سیارہ ٹھنڈا ہوتا ہے، یہ حیرت انگیز بات ہے کہ ایک پینٹ یہ سب کچھ کرسکتا ہے۔
سائنسدانوں نے پینٹ کے نئے فارمولے کی تفصیلات بھی اپنے تحقیقی نتائج میں بیان کیں جو جرنل سیل رپورٹس فزیکل سائنس میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ طیارے بنانے والوں سے لے کر کپڑے اور جوتے تیار کرنے والی کمپنیوں نے ہم سے رابطہ کرکے پوچھا کہ اس پینٹ کو کیسے پتلا کرکے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ابھی یہ پینٹ عام استعمال کے لیے دستیاب نہیں مگر اس حوالے سے کام کیا جارہا ہے۔
اس پینٹ کو پتلا کرنے کے لیے ایک کیمیکل hexagonal boron nitride کو استعمال کیا گیا اور یہ پتلا پینٹ سورج کی 97.9 فیصد روشنی منعکس کرسکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس پینٹ کے استعمال سے تیز دھوپ میں کھڑے طیارے، گاڑی یا دیگر کو ائیرکنڈیشنر استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی جس سے توانائی کی نمایاں بچت ہوگی۔
خیال رہے کہ آپ کو ایئرکنڈیشنر کی ضرورت اس لیے پڑتی ہے کیونکہ سورج کی روشنی گاڑی یا دیگر چیزوں کی چھت اور باڈی کو گرم کردیتی ہے جس سے گرمی کا احساس بڑھ جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ پینٹ ایئرکنڈیشنر کی ضرورت ختم کردے گا کیونکہ یہ سورج کی روشنی کو منعکس کرے گا جس سے گاڑی یا طیارے کے اندر ائیرکنڈیشنر کے بغیر ہی ٹھنڈک کا احساس ہوگا۔
تبصرے بند ہیں.