ملتان، علاج تو کیا ہوتا، معصوم شہریوں کی بینائی چلی گئی

لاہور (نیوز ڈیسک) صحت سہولت پروگرام کے پینل پر موجود نجی ہسپتال میں 20 مارچ کو جن 16 افراد کی آنکھوں کا آپریشن ہوا ان میں سے متعدد اپنی بینائی سے محروم ہوگئے تاہم ہسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سرجری کے بعد ہونے والے انفیکشن سے 11 مریضوں کی بینائی متاثر ہوئی۔

ایک رپورٹ کے مطابق حامد پور کنورہ کے 45 سالہ جیون نے بتایا کہ اگرچہ ان کے پاس پچھلے ایک سال سے زیادہ سے عرصے سے صحت انصاف کارڈ موجود ہے لیکن انہوں نے کبھی اس کا استعمال نہیں کیا۔

تاہم پھر انہوں نے اپنی دائیں آنکھ کا علاج کروانے کا فیصلہ کیا کیونکہ انہیں پریشانیوں کا سامنا تھا، انہوں نے کہا کہ انہوں نے لئیق رفیق ہسپتال سے رابطہ کیا جو اپائنٹمنٹ کے لیے ہیلتھ کارڈ کی فہرست میں موجود ہے۔

ہسپتال نے معائنے کے بعد 20 مارچ کو سرجری کے لیے مریضوں کی پہلی کھیپ کی فہرست میں شامل کیا۔

انہوں نے بتایا کہ ان کا دوسرے مریضوں کے ساتھ آپریشن کیا گیا تھا اور 21 مارچ کو جب ان کی آنکھوں سے پٹی ہٹائی گئی تو وہ دیکھنے سے قاصر تھے، انہوں نے کہا کہ وہ آپریشن سے پہلے بائیں آنکھ سے دیکھ سکتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ جیسے ہی صبح آٹھ بجے یہ پٹی ہٹائی گئی تو میں نے ہسپتال کے عملے کو بتایا کہ میں اپنی بینائی کھو چکا ہوں تاہم جب تک مجھے ڈاکٹر کے معائنے تک انتظار کرنے کو کہا گیا، ڈاکٹر نے دوپہر 3 بجے میرا معائنہ کیا اور مجھے درد کم کرنے والی گولیاں اور آنکھوں کے قطرے دینے کے بعد ہسپتال سے فارغ کردیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ مجھے ایک ہفتے کے بعد معائنے کے لیے ہسپتال آنے کا کہا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی کیونکہ میری بائیں آنکھ میں ناقابل برداشت درد تھا، دوسرے دن میں ہسپتال گیا تو ڈاکٹر نے صرف قطرے تبدیل کیے اور مجھے 10 انجیکشن لگائے، میں نے ان ہدایات پر عمل کیا لیکن آنکھوں کی روشنی میں کمی اور مسلسل آنسو آنے کی شکایت ابھی بھی موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کے ساتھ جن مریضوں کا آپریشن کیا گیا تھا ان کی آنکھوں میں بھی کوئی بینائی نہیں تھی۔

جیون گھروں میں رنگ کرنے کا کام کرتے ہیں۔

آپریشن انجام دینے والے ڈاکٹر حسنین مشتاق نے بتایا کہ وہ 19 سالوں سے مختلف ہسپتالوں میں آپریشن کر رہے ہیں اور انہوں نے ہزاروں آپریشن کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں نے لئیق رفیق ہسپتال میں مریضوں کی پہلی کھیپ کے لیے اپنی بہترین مہارت کا استعمال کیا، اس دن کچھ غلط نہیں ہوا، دو تین دن کے بعد پیچیدگیاں شروع ہوئیں اور ان پیچیدگیوں کی وجہ کچھ انفیکشن ہوسکتے ہیں، بہرحال جو بھی ہوا وہ بدقسمتی ہے۔

ہسپتال کے منیجر ممتاز خان نے بتایا کہ یہ سرجریز بلامعاوضہ انجام دی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ یہ سرجری کے مریضوں کی پہلی کھیپ تھی اس لیے ہسپتال کے بورڈ نے فیصلہ کیا ہے کہ صحت انصاف کارڈ کے حامل مستحق مریضوں کا انتخاب کیا جائے گا اور ان کی سرجری مفت کی جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ مجموعی طور پر 16 میں سے 11 مریضوں کو بعد کی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ان میں سے سات مکمل طور پر صحت یاب ہوچکے ہیں۔

ہسپتال کی انفیکشن کنٹرول کمیٹی نے نمونے اکٹھے کرلیے ہیں، آپریشن تھیٹر کو سیل کردیا ہے اور نمونے لیب کو بھیجے ہیں، ہسپتال انتظامیہ کے کسی بھی عمل کے پیچھے کوئی برا ارادہ نہیں تھا اور بہترین مہارت اور آلات کے ساتھ سرجری کروائی گئی تھی۔

چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی ڈاکٹر ارشد ملک نے کہا کہ ان کے محکمے کا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

ریجنل ہیلتھ کیئر کمیشن کے ایک عہدیدار ناصر نے بتایا کہ کمیشن صرف انتظامی امور سے نمٹتا ہے اور اس طرح کے معاملات سے ہیڈ آفس نمٹتا ہے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب کا نوٹس

وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے ملتان کے نجی ہسپتال میں غلط سرجری کے باعث بعض مریضوں کے بینائی سے محروم ہونے کے واقعہ کا نوٹس لے لیا ہے۔

وزیر اعلیٰ نے سیکریٹری صحت اور کمشنر ملتان ڈویژن سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے واقعے کی واقعہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کر کے رپورٹ وزیر اعلیٰ آفس میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ذمے داروں کا تعین کر کے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے اور حقائق منظر عام پر لا کر بینائی سے محروم افراد کی داد رسی کی جائے۔

وزیر اعلیٰ نے آپریشن کے بعد بینائی سے محروم ہونے والے افراد کے کےعلاج معالجے پر خصوصی توجہ دینے کی بھی ہدایت کی۔

5 رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل

دوسری جانب ملتان کے کمشنر جاوید اختر محمود کی ہدایت پر 5 رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔

کمشنر کے ترجمان نے بتایا کہ انکوائری کمیٹی 24 گھنٹوں میں رپورٹ جمع کروانے کی پابند ہو گی۔

ترجمان نے مزید بتایا کہ ضلعی ہیلتھ افسر میڈیکل سروسز کو انکوائری کمیٹی کا کنونیر مقرر کردیا گیا ہے جبکہ دیگر اراکین میں ضلعی سرویلنس کوآرڈینیٹر، ڈی ڈی ایچ او ہیڈ کوارٹر کمیٹی کے ممبران شامل ہیں۔

اس کے علاوہ ڈرگ کنٹرولر عبدالطیف اور ماہر امراض چشم ڈاکٹر ارم بھی کمیٹی کا حصہ ہیں۔

وزیر اعلیٰ کی ہدایت کی روشنی میں کمشنر کی کمیٹی کو شفاف انکوائری کرکے رپورٹ جمع کروانے کا حکم دیا گیا ہے۔

تبصرے بند ہیں.