پاک فضائیہ اور بلڈرز کو 6 ماہ میں متاثرین کو رقوم دینے کا حکم

کراچی(بیورو رپورٹ) سندھ ہائیکورٹ نے پاک فضائیہ اور بلڈرز کو فضائیہ ہاو¿سنگ اسکیم کے تمام معاملات کو طے کرنے اور میگا اراضی اسکینڈل کے تمام متاثرین کو 6 ماہ کے اندر رقم واپس کرنے کی اجازت دے دی۔سندھ ہائی کورٹ نے قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کو بھی ہدایت کی کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کو معطل کریں اور دونوں فریقین کو ان کے معاہدوں کو پورا کرنے میں مدد کریں اور یہ یقینی بنائیں کہ تمام متاثرہ افراد کو مکمل ادائیگی کی جائے اور کم سے کم عرصے میں اس منصوبے کی دیگر تمام معاملات کو طے کرلیا جائے۔جسٹس کے کے آغا کی سربراہی میں دو ججز پر مشتمل بینچ نے جیل حکام کو کیس میں گرفتار دونوں بلڈرز کو رہا کرنے کی بھی ہدایت کی تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھاسکیں، عدالت نے وزارت داخلہ کو ہدایت کی کہ وہ ان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کریں۔بینچ نے فیصلہ سنایا کہ اگر کسی بھی فریق نے تمام ذمہ داریوں کو 6 ماہ کے اندر حل کرنے کے اپنے حلف کے تحت اس کی تعمیل کرنے میں ناکام رہا تو چیئرمین نیب بلڈرز یا اس منصوبے میں شامل کسی بھی دوسرے فرد کے خلاف عوام سے دھوکہ دہی پر تحقیقات/تفتیش کو بحال کرسکتا ہے، تاہم یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کسی فریق کو زیادہ وقت درکار ہوتا ہے تو وہ مناسب وجوہات بیان کرکے درخواست کے ساتھ بینچ سے رجوع کرسکتا ہے۔واضح رہے کہ نیب تصفیے کے حق میں نہیں تھا اور اس نے دونوں بلڈرز کی رہائی کی بھی مخالفت کی تھی تاہم آخر میں یہ کہا گیا تھا کہ عدالت انصاف اور متاثرہ افراد کے بہترین مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے حکم جاری کرسکتی ہے، میکسم پراپرٹیز کے بلڈرز تنویر احمد اور بلال تنویر کو ہاو¿سنگ اسکیم میں سرمایہ کاری کے ذریعے عوام کو تقریبا 13 ارب روپے سے محروم کرنے کے الزام میں نیب نے گرفتار کیا تھا۔بینچ نے اپنے حکم میں کہا کہ میکسم پراپرٹیز نے ڈائریکٹوریٹ اسٹیٹ پراجیکٹ، پی اے ایف کے ساتھ مشترکہ منصوبے کا معاہدہ کیا تھا تاکہ ’فضائیہ ہاو¿سنگ سکیم کراچی‘ تشکیل دی جاسکے اور عوام کو پلاٹوں کے لیے درخواست دینے کا موقع دیا گیا اور بڑی تعداد میں لوگوں نے اس سلسلے میں خاطر خواہ رقم ادا کی تھی۔تاہم اس اسکیم کو تیار کرنے میں پیشرفت انتہائی سست تھی جس کی وجہ سے الاٹیز میں عدم اطمینان اور خدشات پیدا ہوئے اور بڑے پیمانے پر عوام کو دھوکہ دینے پر دونوں فریقین کے خلاف نیب میں شکایات درج کی گئیں اور نیب نے تحقیقات کا آغاز کیا تھا، کہا گیا کہ انکوائری کے مطابق دونوں فریقین اس منصوبے کو مکمل نہیں کرسکے اور انہوں نے سرمایہ کاری کرنے والوں کو رقم واپس کرنے اور منصوبے کے دیگر تمام معاملات کے تصفیے کے سلسلے میں اپنے حلف نامے سندھ ہائی کورٹ میں جمع کروائے۔بینچ نے بحریہ ٹاو¿ن کراچی، کریک مرینہ کراچی اور بی این پی/حیات ریجنسی اسلام آباد کے کیسز کا حوالہ دیتے ہوئے دونوں فریقین کو اس معاملے کو حل کرنے کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ الاٹیز کے مفاد کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ الاٹیز نے معاملے کو حل کرنے کے لیے دونوں فریقین کے حلف ناموں کی بھی حمایت کی ہے کیونکہ انہوں نے اسے قلیل مدت میں اپنا پیسہ واپس لانے کا واحد حقیقت پسندانہ موقع سمجھا ہے۔بینچ نے کہا کہ ’اگر ہم تصفیے کے معاہدے کو مسترد کرتے ہیں تو پھر اس بات کا بہت امکان ہے کہ یہ معاملہ طویل ٹرائل میں چلا جائے گا اور اس میں رقم کی واپسی کی کوئی ضمانت نہیں ہوسکے گی اور کئی سال لگ جائیں گے، عدالت نے فیصلہ کیا کہ دونوں فریقین الاٹیز اور منصوبے کی دیگر واجبات سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کی تعمیل کرکے چیئرمین نیب کو تسلی دیں گے جس کے بعد چیئرمین نیب اس معاملے کو ختم کردیں گے۔دونوں بلڈرز کے نام ای سی ایل میں اس وقت تک موجود رہیں گے جب تک کہ چیئرمین نیب ان کے تمام وعدوں کی تکمیل ہونے کی عدالت کے روبرو سرٹفکیٹ نہیں دے دیتے، بینچ نے چیئرمین نیب کو 23 نومبر کو پیشرفت رپورٹ جمع کرانے کی بھی ہدایت کی۔

تبصرے بند ہیں.