پشاور(بیورو رپورٹ ) خیبرپختونخوا کووڈ 19 کے مریضوں کی اموات کے حساب سے ملک کا پہلا صوبہ بن گیا جہاں 100 سے زائد لوگ اب تک زندگی کی بازی ہارچکے ہیں، رپورٹ کے مطابق صوبے میں کورونا وائرس سے مجموعی اموات کی تعداد 104 ہے جو ملک کے کسی بھی صوبے کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ محکمہ صحت خیبرپختونخوا کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پیر کو سامنے آنے والی 4 اموات میں سے 4 کا تعلق پشاور جبکہ باقی ایک، ایک مالاکنڈ اور باجوڑ اضلاع سے تھا ، مذکورہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں 120 نئے کیسز کے بعد صوبے میں متاثرین کی تعداد 1984 تک پہنچ چکی ہے۔صوبائی دارالحکومت پشاور جہاں اموات کی شرح (سی ایف آر) 5.25 فیصد ہے وہاں ابھی تک 56 اموات ہوچکی ہیں۔ اس کے علاوہ سوات میں وائرس سے 12 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، مزید یہ کہ مالاکنڈ میں ابھی تک 3 اموات ریکارڈ ہوئی ہیں جبکہ قبائلی ضلع باجوڑ میں بھی پہلی موت سامنے آگئی۔صوبہ خیبرپختونخوا میں اس وقت وبا سے اموات کی شرح 5.4 پر موجود ہے جو کسی بھی صوبے میں سب سے زیادہ ہے، اس وقت ملک میں اموات کی شرح 2.11 فیصد ہے جبکہ پشاور کی سی ایف آر 8.93 فیصد پر موجود ہے جو ملک میں کسی بھی ضلع میں سب سے زیاد ہے۔ کوہستان لوئر اور کولائی پالاس کے سوا خیبرپختونخوا کے تمام اضلاع اس وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں، جس میں پشاور میں سب سے زیادہ 627 کیسز ریکارڈ ہوئے ہیں، اس کے بعد سوات میں 157، مردان میں 136، بونیر میں 102، اپر دیر میں 79، مانسہرہ 75، مالاکنڈ 69، کوہاٹ 58، ایبٹ آباد 50 اور نوشہرہ اور چار سدہ میں 49، 49 کیسز ہیں۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں 18 مریض صحتیاب ہوئے جس کے ساتھ ہی ابھی تک صوبے میں صحتیاب افراد کی تعداد 533 ہوگئی، اس کے علاوہ 760 فعال کیسز قرنطینہ ہیں جبکہ 455 صوبے کے مختلف ہسپتالوں میں داخل ہیں، جس میں سے 405 کی حالت بہت اور 40 کی تشویش ناک ہے جبکہ 10 وینٹی لیٹر پر بھی موجود ہیں۔دوسری جانب ڈاکٹرز نے دوران انٹرویو مریضوں کی دیر سے ہسپتال آمد، صوبے میں کم ٹیسٹنگ اور انتہائی نگہداشت کی سہولیات کی عدم دستیابی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ کووڈ 19 کی اموات کی سب سے زیادہ شرح ہونے کی وجوہات ہیں، انہوں نے کہا کہ ‘آئی سی یو میں مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے ضروری ماہرین کی ملک بھر میں کمی ہے، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ پورے صوبے میں صرف ایک انتہائی حالت میں دیکھ بھال کرنے والا (انٹینسی وسٹ) تھا جو نجی شعبے میں کام کرتا تھا جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں آئی سی یوز تو تھے لیکن وہاں ماہر نہیں تھے جس کی وجہ سے کووڈ 19 سے مزید افراد ہلاک ہوئے ، ان کے بقول پلمونولوجسٹ اور انستھیسیولوجسٹ آئی سی یو چلا رہے ہیں تاہم وہ تشویشناک لوگوں کی دیکھ بھال کے ماہر نہیں، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرز انتہائی نگہداشت سے متعلق اسپیشلائزیشن کے لیے تیار نہیں کیونکہ ان کی نجی طور پر پریکٹس کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔
تبصرے بند ہیں.