سپریم کورٹ کا گاڑیوں کی شناخت کےلئے آن لائن نظام بنانے پر غور کا حکم

اسلام آباد (کورٹ رپورٹر)سپریم کورٹ نے جرائم کے ارتکاب خاص طور پر منشیات میں استعمال ہونے والی گاڑیوں کی رجسٹریشن سے روکنے کے لیے چاروں صوبائی حکومتوں اور اسلام آباد کے چیف کمشنر کو موٹر وہیکل آرڈٰیننس (ایم وی او) 1965 میں ترمیم پر غور کرنے کا حکم دے دیا، عدالت نے صوبائی حکومتوں اور اسلام آباد کی انتظامیہ کو جرائم میں ملوث گاڑیوں کی شناخت کے لیے آن لائن تصدیقی نظام تیار کرنے پر غور کرنے کی بھی ہدایت کی، سپریم کورٹ نے کہا کہ گاڑی کی رجسٹریشن کے وقت منتقل کنندہ ( ٹرانسفرر) / منتقل الیہ ( ٹرانسفری ) کو پولیس سے تصدیق نامہ عدم اعتراض (این او سی) حاصل کرنا ہوگا یا حلف نامہ جمع کروانا ہوگا کہ گاڑی کسی مجرمانہ کیس میں شامل نہیں تھی۔
جسٹس سید منصور علی شاہ کی جانب سے لکھے گئے فیصلے میں یہ ہدایات 30 اکتوبر، 2017 کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر دی گئیں، جسے جسٹس منظور احمد ملک کی سربرای میں 3 رکنی بینچ نے سنا تھا۔کیس کے حقائق سے معلوم ہوتا ہے پولیس نے ٹویوٹا کرولا گاڑی کو روک کر چھاپا مارا تھا اور 2 مسافروں کو گرفتار کیا تھا، پولیس نے گاڑی اور مسافروں سے منشیات اور ہتھیار برآمد کرنےکا دعویٰ کیا تھا اور دونوں مسافروں کے خلاف لاہور میں کنٹرول آف نارکوٹکس سبسٹینس ایکٹ 1997(سی این ایس اے) اور آرمز آرڈیننس 1965 کی دفعات کے تحت 20 اگست 2015 کو مقدمہ درج کیا تھا، مزید یہ کہ پولیس نے گاڑی بھی قبضے میں لے لی تھی لیکن ٹرائل کے دوران درخواست گزار امجد علی خان جس نے گاڑی کا مالک ہونے کا دعویٰ کیا تھا، اس نے ٹرائل کورٹ میں 20 نومبر کو سپرداری پر گاڑی کے حصول کے لیے درخواست جمع کروائی تھی۔درخواست گزار نے موقف اختیار کیا تھا کہ اگر گاڑی ان کے حوالے نہ کی گئی تو انہیں ناقابل تلافی نقصان ہوسکتا ہے، درخواست میں پولیس کی جانب سے گاڑی کو نقصان پہنچانے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔ٹرائل کورٹ نے سپرداری کے لیے 18 دسمبر کو درخواست منظور کرلی تھی تاہم ریاست نے اپیل کے ذریعے لاہور ہائی کورٹ میں اس فیصلے کو چیلنج کردیا تھا۔درخواست گزار کے حق میں گاڑی کی رجسٹریشن، جرم، پولیس کی جانب سے گاڑی قبضے میں لینے اور مقدمہ درج ہونے کے بعد ہوئی تھی۔تاہم سپریم کورٹ نے کہا کہ درخواست گزار کے حق میں گاڑی کی سپرداری کی اجازت دینے کا عدالت کا فیصلہ قانون کے تحت پائیدار نہیں ہے اور لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے کالعدم قرار دینے کے فیصلے کو برقرار رکھا۔سپریم کورٹ نے فیصلے پر اپیل کا حق دینے سے انکار کیا اور درخواست مسترد کردی، ساتھ ہی عدالت نے فیصلہ دیا کہ عام فوجداری قانون کی اسکیم کے تحت پولیس کی جانب سے قبضے میں لی گئی اور کیس کا حصہ بننے والی گاڑی کو ٹرائل کے دوران رہا کیا جاسکتا ہے۔تاہم کنٹرول آف نارکوٹکس سبسٹنسز ایکٹ میں چیزیں مختلف ہیں اور یہ قانون میں موجود سیکشن (2)32 اور 74 کے سوا ٹرائل کے دوران گاڑی کی رہائی کی اجازت نہیں دیتا لہٰذا اگر گاڑیاں یا کسی بھی قسم کی سواری منشیات کو لے جانے میں استعمال ہو تو انہیں قبضے میں لیا جانا لازمی ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ سی این ایس اے کے سیکشن 74 کے تحت فوجداری قانون کے تحت گاڑی کی تحویل اور رہائی سے متعلق سی آر پی سی کی دفعات کا اطلاق نہیں ہوتا۔تاہم سی این ایس اے کے تحت کیس مکمل ہونے تک جرم میں استعمال ہونے والی گاڑی کی واپسی یا کسی ملزم یا اس کے ساتھیوں کو سپرداری نہیں دی جاسکتی۔سپریم کورٹ نے زور دیا کہ درخواست گزار گاڑی کا مالک ہونا چاہیے جس کا مطلب ہے گاڑی لازمی طور پر اس کے نام پر رجسٹرڈ ہونی چاہیے۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں درخواست گزار نے سپرداری کے حصول کے لیے درخواست دی جبکہ اس کے پاس صرف اوپن ٹرانسفر لیٹر تھا، جو اس حوالے سے مستند دستاویز نہیں اور ایم وی او کے تحت گاڑی کی ملکیت منتقل نہیں کرتا۔مزید برآں درخواست گزار کے نام پر گاڑی 21 جنوری2016 کو رجسٹر ہوئی یعنی مبینہ جرم کے ارتکاب، گاڑی کو قبضے میں لینے اور مقدمے کے اندراج کے بعد رجسٹر ہوئی۔عدالتی حکم میں کہا گیا کہ جس گاڑی کی ملکیت اس کے پاس ہے وہ قبضے میں کیسے گئی اور ملزم نے اسے کیسے استعمال کیا یہ بتانے میں درخواست گزار کی ناکامی اس کو سپرداری دیے جانے کے خلاف ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ چونکہ درخواست گزار گاڑی کی ملکیت قائم رکھنے میں ناکام ہوا لہٰذا ہم پروسیکیوشن پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے کہ وہ ظاہر کرے کہ درخواست گزار جرم کے ارتکاب سے آگاہ تھا یا نہیں۔سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ گاڑی کی حوالگی کی درخواست کو برقرار نہیں رکھا جاسکتا اور گاڑی کی ملکیت درخواست گزار کو دینےکا ٹرائل کورٹ کا فیصلہ غلط تھا۔

تبصرے بند ہیں.