ممبئی: اردو کے مشہور شاعر کیفی اعظمی کو ہم سے بچھڑے 10 سال گزر گئے، ان کے سریلےگیت آج بھی کانوں میں رس گھولتےہیں۔ فلمی دنیا کے مشہور شاعر اور نغمہ نگار اختر حسین رضوی عرف کیفی اعظمی اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے، کیفی اعظمی نے پہلی نظم 11 سال کی عمر میں تحریر کی اور 19 سال کی عمر میں بھارت کی کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوگئے، 1940 کے اوائل میں کیفی اعظمی بمبئی آ گئے اور صحافت کے شعبے سے منسلک ہوگئے یہیں ان کی شعری کا پہلا مجموعہ “جھنکار” شائع ہوا۔ مختلف صلاحیتوں کے مالک کیفی اعظمی نے لاتعداد فلموں کے لئے نغمے لکھے، فلم کاغذ کے پھول میں ان کا گانے “وقت نے کیا کیا حسیں ستم” کو بہت سراہا گیا، اس کے بعد پاکیزہ فلم کا گانا “چلتے چلتے کہیں کوئی مل گیا تھا”، ہیر رانجھا کا ’’یہ دنیا یہ محفل‘‘ اور ارتھ کے گیت “تم اتنا جو مسکرا رہے ہو” بے حد مقبول ہوئے، ان کی غزلوں اور نظموں کی مقبولیت کی اصل وجہ ان میں جذبات کا بے پناہ اظہار، الفاظ کی خوبصورتی اور غیر منصفانہ معاشرے کے خلاف بغاوت کا عنصر تھا۔ اردو شاعری کے فروغ کے لئے انتھک کام کرنے پر انہیں ساہتیا اکیڈمی فیلوشپ انعام سے نوازا گیا، کیفی اعظمی معروف بھارتی اداکارہ شبانہ اعظمی کے والد اور شاعر جاوید اختر کے سسر تھے، اپنے نغموں سے ناظرین کا دل جیتنے والے عظیم شاعر اور نغمہ نگار کیفی اعظمی 10 مئی 2002 کو اس دنیا سے رخصت ہو ئے۔
تبصرے بند ہیں.