جارحانہ انتخابی مہم آج رات عمران خان کے لیے ہمدردی کی لہر کے ساتھ ختم ہوگی

راچی: پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان خاص طور پر نہیں بلکہ مجموعی طور پر جارحانہ انداز میں شروع ہونیوالی انتخابی مہم آج رات عمران خان کیلیے ہمدردی کی لہر کے ساتھ اختتام پذیر ہوگی۔ امکان ہے کہ عمران خان آج رات وڈیو لنک کے ذریعے لیاقت باغ راولپنڈی میں 10 منٹ کا خطاب کریں گے، عمران خان کو پیش آنیوالے حادثہ نے نہ صرف پی ٹی آئی بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم معطل کرا دی، جہاں ایک طرف عمران خان کیلیے ہمدردی کی لہر پیدا ہوئی تو دوسری طرف شریف برادران کے آدھا درجن سے زائد جلسے متاثر ہوئے، ابھی یہ کہنا تو مشکل ہے کہ ہمدردی کی لہر میں عمران خان کو کتنا ووٹ پڑتا ہے تاہم اسپتال بیڈ سے ووٹ ڈالنے کی اپیل کا ان کی پارٹی کو فائدہ پہنچ سکتا ہے، لیکن ن لیگ کے اپنی انتخابی مہم معطل کرنے اور شہباز شریف کے عمران خان کی خیریت دریافت کرنے کے لیے شوکت خانم اسپتال جانے سے کافی حد تک کشیدگی کم ہوئی ہے، منگل کے واقعے نے اتنا متاثر کیا کہ نجی چینلز پر اس کے سوا کوئی دوسری خبر ہی نہ تھی، جس پر پیپلزپارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے کارنر میٹنگز اور جلسے منسوخ کر دیے۔ عمران خان جو آج رات لیاقت باغ میں شیخ رشید کے ساتھ جلسہ عام میں ایک گھنٹے کے خطاب کے ساتھ اپنی انتخابی مہم کا اختتام کرنے والے تھے، حادثے سے کسی حد تک مایوس ہوئے ، لیکن کون جانتا ہے کہ ان کیلیے اٹھنے والی ہمدردی کی لہر ان کی جارحانہ مہم سے زیادہ سود مند ثابت ہو، ن لیگ کے قائد نواز شریف اپنی انتخابی مہم آج رات داتا دربارپر خطاب کے ساتھ ختم کریں گے، وہ عمران خان پر تنقید تو نہیں کریں گے البتہ عوام سے ہفتے کو ن لیگ کے انتخابی نشان ’’شیر ‘‘پر مہر لگانے کی اپیل ضرور کریں گے، دوسری طرف عمران خان اپنی والدہ کے نام پر قائم شوکت خانم اسپتال سے عوام سے جذباتی اپیل کریں گے، یہ بھی امکان ہے کہ وہ انتخابی نتائج بھی شوکت خانم اسپتال میں ہی سنیں ، عمران خان جو قومی اسمبلی کے چار حلقوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں، راولپنڈی والے حلقے میں نہیں جا سکے جہاں ان کا مسلم لیگ ن کے امیدوار حنیف عباسی سے سخت مقابلہ ہے۔ تاہم دو بار الیکشن ہارنے والے شیخ رشید نے لیاقت باغ کے جلسے میں عمران خان کے خطاب سے بڑی امیدیں لگا رکھی ہیں،اگرچہ عمران خان کی حالت تسلی بخش ہے تاہم ڈاکٹروں نے انھیں دو ہفتے تک آرام کا مشورہ دیا ہے، انتخابی مہم مجموعی طور پبجاب میں دو جماعتوں کے درمیان جارحانہ رہی تاہم دیگر صوبوں میں 1970 کے بعد سب سے زیادہ بے رنگ اور خونیں رہی، پاکستان کی انتخابی تاریخ میں یہ بے مثال واقعہ دیکھنے کو ملا ہے کہ سب رنگ جماعت پیپلزپارٹی کا اس کے بڑے لیڈروں کی موجودگی کے باوجود ایک بھی جلسہ عام نہیں ہوا، بڑی دینی جماعت جمیعت علماء اسلام ف کو بھی انتخابی مہم کے آخری مراحل میں بم دھماکوں کا دکھ اٹھانا پڑا ہے جبکہ جماعت اسلامی کو پشتونوں کے علاقوں میں حملوں کا سامنا رہا، آج رات انتخابی مہم کے اختتام کے بعد مختلف شہروں میں ہزاروں فوجی تعینات ہو جائیں گے جبکہ تمام جماعتیں عوام سے اپیل کریں گی کہ وہ دہشت گردی کے خدشات کے باوجود 11 فروری کو ووٹ کاسٹ کریں، شاید تمام لیڈرز اورخاص طور پر عمران خان چاہیں گے کہ زیادہ سے زیادہ نوجوان ووٹ ڈالیں، کیونکہ انھیں ان سے بڑی امید ہے، جبکہ مسلم لیگ ن ار پیپلزپارٹی اپنے روایتی اور نئے ووٹروں کی طرف دیکھ رہی ہیں۔

تبصرے بند ہیں.