پشاور کے بعد کراچی کی مقامی عدالت کا بھی عورت مارچ کے منتظمین کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم

Pakistani civil society activists carry placards as they march during a rally to mark International Women's Day in Karachi on March 8, 2018. / AFP PHOTO / ASIF HASSAN

کراچی (نیوز ڈیسک) ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جنوبی (کراچی) نے پولیس کو حکم دیا ہے کہ اگر کوئی قابل گرفت جرم ہوا ہے تو درخواست گزار کا بیان ریکارڈ کرتے ہوئے اسلام آباد کے عورت مارچ کے منتظمین کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی جائے۔

عدالت کی جانب سے یہ احکامات ایک ایسے وقت میں آئے ہیں جب ایک روز قبل ہی پشاور کی مقامی عدالت نے بھی مذکورہ مارچ کے منتظمین کے خلاف مبینہ طور پر توہین آمیز الفاظ اور پوسٹر بنانے پر ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تھا۔

کراچی کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جنوبی نے یہ حکم اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) سٹی کورٹس پولیس اسٹیشن کو ایک درخواست پر دیا جو ایڈووکیٹ جی ایم آرائیں نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 22 ‘اے’ کے تحت اسی تھانے کے ایس ایچ او کے خلاف دی تھی جنہوں نے مبینہ طور پر عورت مارچ کے منتظمین کے خلاف ایف آئی آر کے لیے ان کی درخواست منظور کرنے سے انکار کیا۔

تحریر جاری ہے‎

سیکشن 22 اے عدالتوں کو جسٹس فار پیس کے تحت احکامات دینے کے اختیار تفویض کرتا ہے اور مقدمہ درج کرنے میں ناکامی پر عدالتیں ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے سکتی ہیں۔

درخواست گزار ایڈووکیٹ جی ایم آرائیں نے ماروی سرمد، طوبیٰ سید اور دیگر کو فریق بنایا کہ انہوں نے اسلام آباد میں 8 مارچ کو عورت مارچ کے نام پر ایک ایونٹ کا انتظام کیا۔

انہوں نے کہا کہ وہ اور کراچی بار ایسوسی ایشن کے دیگر اراکین نے مارچ کو ٹی وی چینل پر دیکھا جو وفاقی دارالحکومت سے نشر کیا جارہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ مارچ کے دوران مقدس مذہبی شخصیات اور ان کی ازواج کے خلاف نامناسب الفاظ استعمال کیے گئے اور اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے۔

درخواست گزار نے مزید کہا کہ مارچ کے دوران فحش اور اسلام مخالف نعرے بلند کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی بار ایسوسی ایشن کے اراکین نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں منتظمین اور شرکا کی جانب سے خواتین کی آزادی اور ان کے حقوق کے نام پر اس طرح کے اقدامات کی مذمت کی گئی ہے۔

تحریف شدہ ویڈیوز

یاد رہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں کراچی میں منعقدہ مارچ کے حوالے سے ایک تحریف شدہ ویڈیو پھیلائی گئی تھی جس میں غلط طور پر شرکا کی جانب سے توہین آمیز نعرے لگاتے ہوئے دکھایا گیا تھا اور سوشل میڈیا پر بھی جاری کی گئی تھی۔

بعد ازاں پاکستان بھر میں عالمی یوم خواتین پر ’عورت مارچ’ کا انعقاد کرنے والے منتظمین نے واضح کیا تھا کہ مارچ کے شرکا نے ایسے نعرے بالکل نہیں لگائے اور انہیں بدنام کرنے کے لیے ان کی ویڈیوز ایڈیٹ کی گئیں۔

انہوں نے صحافیوں، سماجی رہنماؤں اور سوشل میڈیا اسٹارز سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ’ایڈٹ شدہ‘ ویڈیو کو اصلی سمجھ کر سوشل میڈیا پر پھیلانے پر معافی مانگیں۔

منتظمین نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو کو ’ایڈٹ شدہ‘ اور ’جعلی‘ قرار دیا اور کہا تھا کہ مذکوہ قدم ان کی جدوجہد کو کمزور کرنے کا ہتھیار ہے۔

عورت مارچ کی جانب سے اپنی ویڈیو کو ’ایڈٹ‘ کیے جانے سے متعلق وضاحت کیے جانے کے بعد ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے مذکورہ معاملے پر ٹوئٹ کی اور بتایا تھا کہ خواتین کے نعروں کی ویڈیو کو تبدیل کرکے ان کے خلاف خطرناک سازش کی گئی۔

عوام نے اسلام آباد مارچ میں ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ (ڈبلیو ڈی ایف) کے جھنڈوں کو بھی غلط سمجھ لیا تھا کہ یہ فرانس کا پرچم ہے، تاہم منتظمین نے وضاحت جاری کردی تھی۔

وفاقی دارالحکومت میں مارچ کے منتظمین کے خلاف ایف آئی ار کے اندراج کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج کیا گیا تھا اور وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے کہا تھا کہ متنازع مواد سوشل میڈیا پر عورت مارچ کے حوالے سے پھیلایا جارہا ہے تاہم اس کی تفتیش کی جارہی ہے۔

تبصرے بند ہیں.