پاکستان میں کورونا عروج پر ، ہسپتالوں کی صلاحیت کم پڑ گئی

کراچی(بیورو رپورٹ) جہاں ملک میں کورونا وائرس کے کیسز عروج پر ہیں وہیں ملک کے تقریباً تمام بڑے ہسپتالوں کی صلاحیت بھی تیزی سے کم ہوتی جارہی ہے، رپورٹ کے مطابق سندھ کے محکمہ صحت کے مطابق مجموعی طور پر 22 نجی اور سرکاری ہسپتال کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کر رہے ہیں، ان 22 ہسپتالوں میں سے کل ایک ہزار 48 ا?ئیسولیشن بیڈز تھے جن میں سے پیر (8 جون) تک 173 بھرے ہوئے تھے اور 875 خالی تھے۔سندھ میں مجموعی طور پر ہائی ڈپینڈنسی یونٹز (ایچ ڈی یو) میں کل 486 بستر ہیں جن میں سے 237 بھرے ہوئے ہیں، کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے ان ہسپتالوں کے انتہائی نگہداشت یونٹز (آئی سی یو) میں 240 وینٹی لیٹرز ہیں جن میں سے 60 پر مریض موجود ہیں، صرف کراچی میں 31 ہزار سے زائد کیسز ہیں جس کی وجہ سے میٹروپولٹن شہر میں نجی اور سرکاری ہسپتالوں میں صلاحیت کی کمی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، محکمہ صحت سندھ کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر ضیائ الدین ہسپتال نارتھ ناظم آباد میں 6 بستروں کے علاوہ کراچی میں آئی سی یو یونٹز میں کوئی جگہ خالی نہیں ہے، صوبائی دارالحکومت میں کل 389 ایچ ڈی یو بیڈز میں سے 213 اور 181 آئی سولیشن بیڈز میں سے 152 بھرے ہوئے ہیں، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (سینٹر) کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا کہ ڈاکٹرز روز اول سے ہی اس مشکل صورتحال کے بارے میں خبردار کرتے آرہے تھے، میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس صحت کا ایسا نظام موجود نہیں ہے جو ایک مقررہ وقت میں بڑی تعداد میں مریضوں کو لے سکے‘ان کے مطابق فی الحال کراچی کے بڑے ہسپتال بشمول آغا خان یونیورسٹی ہسپتال، انڈس ہسپتال، ڈاو¿ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (اوجھا کیمپس)، ساو¿تھ سٹی ہسپتال اور ضیاءالدین یونیورسٹی ہسپتال نے مریضوں کو لینا بند کردیا ہے، انہوں نے کہایہ ہسپتال کسی نئے مریض کو لینے کے بجائے پہلے سے ایچ ڈی یو میں زیر علاج مریض کو وینٹی لیٹر پیش کرنے کو ترجیح دیں گے، ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح کی صورتحال سندھ کے اندرونی حصوں میں پائی جاتی ہے، فی الحال لیاری جنرل ہسپتال جیسے ہسپتالوں میں وینٹی لیٹر دستیاب ہیں جہاں زیادہ تر خاندان اپنے مریضوں کو داخلے کے لیے لے جانا پسند نہیں کریں گے، محکمہ صحت سندھ کے مطابق سول ہسپتال کراچی، شہید محترمہ بے نظیر بھٹو ایکسیڈنٹ اینڈ ٹراما سنٹر، ڈاو¿ یونیورسٹی اوجھا کیمپس، جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر، لیاری جنرل ہسپتال، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چلڈرن ہیلتھ (این آئی سی ایچ)، انڈس ہسپتال، سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی)، ڈاکٹر ضیاءالدین ہسپتال کلفٹن اور نارتھ ناظم آباد اور آغا خان یونیورسٹی اسپتال (اے کے یو ایچ) کراچی میں کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج ہورہا ہے، حکومت سندھ کی پاک نگہبان ایپ کے مطابق وینٹی لیٹر صرف لیاری جنرل ہسپتال میں دستیاب ہیں جبکہ سول اسپتال، جے پی ایم سی، ایس آئی یو ٹی اور آغا خان محدود صلاحیت پر چل رہے ہیں، ایپ کے مطابق انڈس ہسپتال، این آئی سی ایچ، اور ڈاکٹر ضیائ الدین ہسپتال کی تمام شاخوں میں کوئی بستر/وینٹیلیٹر دستیاب نہیں ہیں، ایپ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شہر کے دوسرے ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے تاہم سندھ کے محکمہ صحت کے مطابق صرف مذکورہ ہسپتال ہی کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کر رہے ہیں، ڈاکٹر سجاد نے کہا کہ یہ سمجھنا بھی ضروری ہے ایک سنگین نوعیت کے مریض کی دیکھ بھال کے لیے صرف وینٹی لیٹر ہی نہیں ہے بلکہ انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں تکنیکی آلات کو چلانے میں مہارت انتہائی ضروری ہے ورنہ ناقص تربیت یافتہ عملہ مریض کو ہلاک کرسکتا ہے، تکنیکی مہارت کے بغیر وینٹی لیٹر رکھنا ڈرائیور کے بغیر گاڑی رکھنا کے برابر ہے، ہسپتال کے بستروں کی دستیابی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ آئسولیشن سہولیات میں بستر دستیاب ہیں لیکن جو چیز چیلنج بن کر سامنے آئی ہے وہ سنگین مریضوں کو معیاری نگہداشت فراہم کرنا ہے۔پنجاب میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبائی حکومت نے تمام سرکاری ہسپتالوں میں کورونا وائرس کے مریضوں کے لئے 568 وینٹی لیٹر مختص کیے ہیں، 6 جون کو سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 568 وینٹی لیٹرز میں سے 116 زیر استعمال تھے جبکہ 452 خالی تھے، اسی طرح ان صحت کی سہولیات میں 42 ہزار 983 بستر تھے جو دو الگ الگ محکموں کے تحت آتے ہیں جن میں محکمہ صحت کی خصوصی نگہداشت اور میڈیکل ایجوکیشن (ایس ایچ اینڈ ایم ای ڈی) اور پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ (پی اینڈ ایس ایچ ڈی) شامل ہیں، سرکاری دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے 7 ہزار 544 کورونا وائرس مریضوں کے لیے آئی سولیشن وارڈ میں مختص کیا گیا تھا، اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ان بیڈز میں سے ایک ہزار 405 بھرے ہوئے تھے جبکہ باقی 6 ہزار 139 خالی تھے، کورونا وائرس کے لیے مختص کل بستروں میں سے 944 ایچ ڈی یوز کے لیے ہیں جن میں سے 381 بھرے ہوئے اور 537 خالی ہیں۔ خیبرپختونخوا کے صوبائی ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ڈاکٹر زبیر ظاہر کے مطابق خدشہ ہے کہ صوبہ تیزی سے ایسی صورتحال کی طرف جارہا ہے جہاں کورونا وائرس کے مریضوں کو لینے کے لیے ہسپتالوں میں جگہ نہیں ہوگی، انہوں نے کہا کہ پشاور کے بیشتر ہسپتالوں میں بیڈ ختم ہوگئے ہیں اور حکومت کو متاثرہ مریضوں پر توجہ دینی چاہیے اور مریضوں کے موثر انتظام کو یقینی بنانے کے لیے اضافی بستروں اور وینٹی لیٹرز کے لیے فوری انتظامات کرنے چاہیے، ان کا کہنا تھا کہ ہسپتالوں میں بڑی تعداد میں مریض موجود ہیں اور ان کے لواحقین بستر تلاش کرنے کے لیے ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال کے چکر لگارہے ہیں تاہم انہیں کچھ حاصل نہیں ہورہا، ڈاکٹر زبیر ظاہر نے کہا کہ حکومت کورونا وائرس کے سنگین مریضوں کی آمد سے نمٹنے کے لیے وینٹی لیٹرز کے ساتھ بستروں کا بھی انتظام کرے، ایسوسی ایشن کے صدر کا کہنا تھا کہ حکومت مریضوں کے لیے پشاور میں ایک ٹیچنگ ہسپتال مختص کرے یا اس مقصد کے لئے فیلڈ ہسپتال قائم کرے۔ادھر بلوچستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کے لئے 2 ہزار 148 بستر دستیاب ہیں، کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے مختص کیے گئے شیخ زید ہسپتال میں 225 بستر، فاطمہ جناح چیسٹ ہسپتال اور سول اسپتال میں صرف 30 بستر اور بولان میڈیکل کالج ہسپتال میں 50 بستر دستیاب ہیں، صوبے میں سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں کل 93 وینٹی لیٹرز دستیاب ہیں، ان وینٹی لیٹروں میں سے 82 سرکاری ہسپتالوں میں اور 11 کوئٹہ کے نجی ہسپتالوں میں ہیں۔

تبصرے بند ہیں.