اسلام آباد(کامرس رپورٹر) ملک کے بیشتر حصوں میں پٹرولیم مصنوعات کی فراہمی شدید متاثر ہوئی ہے جس کی وجہ آئل مارکیٹنگ کمپنیاں اور متعلقہ حکام کی مقررہ ڈپو پر لازمی اسٹاک کو یقینی بنانے میں ناکامی ہے، رپورٹ کے مطابق قیمتوں میں نظرثانی کے بعد مہینے کے پہلے دو دن چھوٹے اسٹاک کے فوری ختم ہو جانے کے بعد بہت سے شہروں اور علاقوں میں عام طور پر پیٹرول کے نام سے مشہور گاڑیوں کے ایندھن کی سپلائی میں سب سے بڑی کمی دیکھی گئی ، اس کے بعد تیل کمپنیوں کو پیٹرولیم ڈویڑن کے حکام اور آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے اسٹاک کے مکمل خاتمے سے بچنے کے لیے مخصوص طریقہ کار اپنانے کا کہا گیا، انہوں نے پیٹرول پمپس کو ہدایت کی کہ وہ ہر گاڑی کو زیادہ سے زیادہ 500 یا 1000 روپے تک کا پیٹرول فراہم کریں تاہم اس کے باوجود منگل کو اکثر پمپس میں پیٹرول ختم ہوگیا۔عہدیداروں نے بتایا کہ اب یہ قلت 10 دن سے عرصے تک رہے گی کیونکہ تیل کمپنیوں نے درآمد کا حکم نہیں دیا اور انوینٹری نقصانات سے بچنے کے لیے قیمتوں میں کمی کے امکان کے تحت ریفائنریز سے مقامی پیداوار کو کم کیا ہے، صورتحال اوگرا اور تیل کے ڈائریکٹوریٹ جنرل کے سامنے واضح تھی جو مئی کے پہلے اور دوسرے ہفتے میں بھی تیل کی مارکیٹنگ کی بڑی کمپنیوں کے کم اسٹاک پر خطوط کا تبادلہ کرتے رہے ہیں۔قواعد کے تحت تمام تیل کمپنیوں اور ریفائنریز لائسنس کے لیے پابند ہیں کہ وہ ہر وقت پیٹرولیم مصنوعات کے کم سے کم 21 دن کے استعمال کا احاطہ یقینی بنائے چاہے ملک حالت جنگ میں ہو یا امن میں، بدقسمتی سے 80 سے 90 تیل پیداواری کمپنی اور ریفائنریز میں سے کسی نے بھی اس لازمی ضرورت کو پورا نہیں کیا اور گزشتہ چند دنوں سے ملک کا پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کا تقریباً مجموعی اسٹاک اوسطاً 11 دنوں سے زیادہ کا نہیں تھا۔اس کے علاوہ بھی زیادہ تر اسٹاک بندرگاہ کے قریب تھے یا کچھ کیسز میں بڑے ڈیپوز کی ملکیت میں تھے لیکن پمپ اسٹیشنز تک اس کی نقل و حرکت ناہموار رہی مثال کے طور پر 2 جون کوپنجاب میں پیٹرول اور ڈیزل کے اسٹاک کی اوسط تین اور چار دن کی کھپت ہوئی، سندھ میں پیٹرول اور ڈیزل کا اوسطاً اسٹاک بالترتیب 7 روز اور 16 روز کا رہا جبکہ خیبرپختونخوا میں یہ صرف 4 دن کا رہا۔سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بلوچستان میں ڈیزل اور پیٹرول کے لیے کل اسٹاک بالترتیب 7 اور 3 روز کے لئے کافی تھے جبکہ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں دونوں مصنوعات کا اسٹاک 6 روز کے لیے کافی تھا، منگل کے روز ملک بھر میں اسٹاک اوسطاً 5 سے 7 روز ہے، ریفائنریز میں اسٹاک منگل کے دن 2 سے 14 دن کے درمیان تھا لیکن کوئی بھی لازمی اسٹوریج کی حد پر نہیں تھے، عہدیداروں نے بتایا کہ عید کی چھٹیوں کے دوران سپلائی میں خلل پڑنا شروع ہوا تھا۔تیل اور اوگرا کے ڈائریکٹر جنرل نے عید سے قبل ہی تیل پیدا کرنے والی کمپنیوں اور ریفائنریز کو سپلائی بڑھانے کے لیے کہا اور مئی کے آخری ہفتے میں تمام کمپنیوں سے اسٹاک کے تفصیلی پوزیشنز کا مطالبہ کیا حالانکہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو روزانہ کی فراہمی مستقل بنیاد پر دستیاب ہوتی ہے۔29 مئی کو ہائیڈرو کاربن ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان سے تمام مصنوعات اور تمام کمپنیوں کے ریٹیل اسٹیشن اور اسٹاک پوزیشن کی تصدیق کرنے کے لیے کہا گیا جو وقت لینے والا عمل تھا اور پہلے ہی دیر سے ہوچکی تھی۔آخری کوشش کے طور پر پٹرولیم ڈویڑن نے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے ذریعے کوشش کی کہ دو ہفتوں تک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہو لیکن ای سی سی نے بھی ا?خری لمحے میں معاملے میں ملوث ہونے سے انکار کردیا تھا۔پٹرولیم ڈویژن نے باضابطہ طور پر تیل کی صنعت کو موجودہ نرخوں پر فروخت کرکے اپنے کچھ نقصانات کی تلافی کے لیے اسے روکنے کا مطالبہ کیا، اس نے ای سی سی کو متنبہ کیا تھا کہ پٹرولیم قیمتوں میں کمی سے سپلائی میں رکاوٹ پیدا ہوجائے گی جس کو معمول پر آنے میں ہفتوں اور مہینوں لگ سکتے ہیں کیونکہ زیادہ تر تیل پیدا کرنے والی کمپنیوں کے اسٹاک غیر معمولی طور پر کم تھے۔وزارت نے اپنی سمری میں اس کا ذکر نہیں کیا کہ تیل پیدا کرنے والی کمپنیاں اور ریفائنریز کے لیے یہ لازمی ہے کہ وہ 21 دن تک کے اسٹاک کو برقرار رکھے اور نہ ہی اس نے اطلاع دی کہ تیل کمپنیاں تقریباً تین سالوں جب عالمی قیمتوں میں اضافہ ہورہا تھا تو انوینٹری فوائد کے ذریعہ ونڈ فال منافع کما رہی ہیں اور اس طرح کا فائدہ کبھی بھی صارفین یا قومی خزانے کے ساتھ شیئر نہیں کیا جاتا تھا۔
تبصرے بند ہیں.