اسلام آباد (سپیشل رپورٹر)حکومت کے ٹریس اینڈ ٹریکنگ سسٹم نے ملک بھر میں 5 ہزار سے زائد افراد کی کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کے خطرے کی نشاندہی کی ہے۔گزشتہ ہفتے وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ حکومت، کورونا وائرس کے کیسز کے لیے ٹریکنگ سسٹم استعمال کررہی ہے جو انٹیلی جنس ایجنسیز کی جانب سے دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔انہوں نے ایک براہ راست ٹیلی تھون کے دوران کہا تھا کہ انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) نے ہمیں ٹریک اور ٹریس کے لیے ایک بہت زبردست سسٹم دیا ہے، یہ دراصل دہشت گردوں کے خلاف استعمال ہوتا تھا اور اب یہ کورونا وائرس کے خلاف استعمال ہوگا۔حکومت کو ٹریکنگ کی سہولت فراہم کرنے والے نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ(این آئی ٹی بی) کے سربراہ شباہت شاہ کے مطابق اب تک 5 ہزار کے قریب افراد کے رابطے کی تفصیلات حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دی گئی ہیں جو ان شناخت کیے گئے افراد تک پہنچیں گے اور اس نظام کی درستگی کی تصدیق کریں گے ، انہوں نے کہا کہ ان افراد میں مریض اور وہ افراد شامل ہیں جن کا مریضوں سے رابطہ ہوسکتا ہے، یہ سسٹم خطرے کا شکار افراد کی نقل حرکت معلوم کرنے کے لیے ٹیلی کام ڈیٹا کا استعمال کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ چونکہ سیل ٹاور ٹریسنگ پر مبنی لوکیشن کا نصف قطر لوگوں کو ٹریس کرنے کے لیے بہت وسیع ہے لہذا ہم مزید درستگی کے لیے نصف قطر کو کم کرنے کے لیے سسٹم کے الگورتھم کا استعمال کرنا چاہتے ہیں۔شباہت شاہ نے کہا کہ پاکستان کے شہری علاقوں میں نصف قطر 100 میٹر اور دیہی علاقوں میں 200میٹر ہے، ٹیلی کام پرووائیڈرز، سیل سائٹ لوکیشن انفارمیشن(سی ایس ایل آئی) کے استعمال سے موبائل فونز کے لوکیشن ڈیٹا جمع کرتے ہیں، جو اس پرمبنی ہوتا ہے کہ کس سیل ٹاور سے کوئی فون اور کب منسلک ہوا، چونکہ سیل ٹاورز کے مابین موبائل ڈیوائسز کی منتقلی بھی ہوتی ہے اس لیے نیٹ ورک وقت اور لوکیشن کے علاوہ (کال ڈیٹیل ریکارڈز (سی ڈی آرز کی شکل میں) کالز، ایس ایم ایس اور ڈیٹا کا استعمال بھی ریکارڈ کرلیتا ہے۔
شباہت شاہ کے مطابق ایک مرتبہ تمام معلومات ٹریک سینٹر پر موصول ہوجائیں تو صرف ان افراد کا پتہ لگانے اور قرنطینہ کرنے کے لیے غیر شناختی تفصیلات ( جیسا کہ فون نمبر) صوبائی اور ضلعی حکام کو دی جاتی ہیں۔سسٹم کی جانب سے جمع کیے گئے مکمل ڈیٹا تک رسائی کے لیے نیشنل کمانڈ سینٹر کے ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ادارے اور سیکیورٹی ایجنسیز بھی ٹیکنالوجی کی نگرانی کریں گی جبکہ صوبائی حکومتیں اور قانون نافذ کرنے والے مقامی گروہ اس پر عملدرآمد جیسا کہ لوگوں سے رابطہ کرنے کے ذمہ دار ہوں گے۔لوگوں کی ٹریکنگ کے لیے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (ایس او پی) سے متعلق سوال پر شباہت شاہ نے کہا کہ اس وقت وہ طریقہ کار کے اثر انداز ہونےکی صلاحیت اور درستگی کی جانچ کررہے ہیں۔’ ایس او پیز فار کانٹیکٹ ٹریسنگ’ کے عنوان سے دستاویز قومی ادارہ برائے صحت کی ویب سائٹ پر موجود ہے جو رابطے کے طور پر نشاندہی کی وضاحت کرتا ہے لیکن اس حوالے سے ٹیکنالوجی کی تفصیلات موجود نہیں ہے، درحقیقت اس کا زیادہ تر مواد آسٹریلوی وزارت صحت کی ہدایات سے لیا گیا ہے۔علاوہ ازیں صرف سیل ٹاور ٹریسنگ کے استعمال سے خطرے کا شکار 5 لاکھ 60 ہزار کے قریب افراد کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی(پی ٹی اے) کی جانب سے ‘ کورونا الرٹ’ کا پیغام بھیجا گیا ہے۔گزشتہ ماہ پی ٹی اے نے کہا تھا کہ وزارت صحت کی درخواست پر ان لوگوں کو ایس ایم ایس الرٹس بھیجے گئے ہیں جو دورانِ سفر یا دیگر مقامات پر متاثرہ افراد سے رابطے میں آسکتے ہیں۔الرٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘ یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ گزشتہ 14 روز میں آپ نے کورونا وائرس کے مصدقہ کیس سے رابطہ کیا ہو لہذا آپ سے خود ساختہ قرنطینہ کرکے ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی درخواست کی جاتی ہے ، اس الرٹ میں علامات ظاہر ہونے جیسا کہ بخار، کھانسی، سانس لینے میں یا جسم میں تکلیف کی صورت میں قریبی طبی مرکز جانے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔
تبصرے بند ہیں.