کراچی(مانیٹر نگ ڈیسک) مالی سال2019-20کے اختتام پر اسٹیٹ بینک کا منافع 900 بلین روپے سے زائد پر پہنچ گیا۔اسٹیٹ بینک نے اپنے نقدذخائر بڑھانے اور مالی خودمختاری کو یقینی بنانے کے لیے منافع کا ایک تہائی اپنے پاس رکھنے کی کوشش کی مگر اس کوشش کو وزارت خزانہ کی جانب سے کلی طور پر منظوری نہیں مل سکی ہے۔مرکزی بینک اور وزارت خزانہ کے ذرائع نے اس ضمن میں بتایا کہ وزارت مالی سال 2019-20کے دوران حاصل کردہ نفع کا 20 فیصدعمومی ذخائر میں اضافے کے لیے مختص کرنے کی ایک تجویز رد کرچکی ہے۔ذرائع کے مطابق اس کے باوجود گذشتہ جون2020 کو ختم ہونے والے مالی سال میں مرکزی بینک 177.5 بلین روپے(منافع کا 16 فیصد )اپنے قبضے میں رکھنے میں کامیاب ہوگیا۔ مرکزی بینک کے بورڈ نے یہ رقم گذشتہ مالی سال کے مجموعی نفع میں سے منہا کرنے کی منظوری بھی دیدی ہے۔وزارت خزانہ کے ذرائع نے بتایاکہ اسٹیٹ بینک مجموعی طور پر 398 بلین روپے اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا جس کی بجٹ خسارے کی پیچیدگیوں کی وجہ سے وزارت نے منظوری نہیں دی۔ وزارت خزانہ کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ حالیہ ہفتوں میں مرکزی بینک نے کچھ ایسی تجاویز دیں جو پورے مالیاتی آپریشن کے لیے مضمرات کی حامل تھیں چنانچہ وزارت نے ان میں سے کچھ تجاویز کو قبول نہیں کیا۔ مرکزی بینک کی طرف سے منافع میں کٹوتی کا بجٹ خسارے پر براہ راست اثر پڑتا ہے جو مسلسل دو سال سے جی ڈی پی کے 8 فیصد سے زائد رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان قرض کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے۔
تبصرے بند ہیں.