فیض احمد فیض کو ہم سے بچھڑے 29 برس بیت گئے

اردو کے عظیم انقلابی اور رومانوی شاعر فیض احمد فیض کو دنیا سے بچھڑے 29 برس بیت گئے لیکن ان کی شاعری آج بھی کروڑوں لوگوں کی ترجمانی کرتی ہے۔ 1911 میں سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے نے تدریسی مراحل اپنے آبائی شہر اور لاہور میں مکمل کئے، اپنے خیالات کی بنیاد پر 1936 میں ادبا کی ترقی پسند تحریک میں شامل ہوئے اور اسے بام عروج پر پہنچایا، درس و تدریس چھوڑ کر دوسری جنگ عظیم میں انہوں نے برطانوی فوج میں شمولیت اختیار کی لیکن بعد میں ایک بار پھر علم کی روشنی پھیلانے لگے جو زندگی کے آخری روز تک جاری رہا اس دوران وہ ایم اے او کالج امرتسر، ہیلے کالج لاہور اور عبداللہ ہارون کالج کراچی سے منسلک رہے۔ فیض احمد فیض معاشی و معاشرتی عدم مساوات، شخصی آزادی و انسانی حقوق کے علمبردار تھے اپنے نظریات کی بنا پر انہوں نے اپنی زندگی میں کئی نشیب و فراز دیکھے، کئی برس ملک کی جیلوں اور جلا وطنی میں کاٹے لیکن وطن سے محبت اور انقلاب کی آس نے ان کا حوصلہ جوان رکھا۔ ان کی شاعری انسانیت کے کرب اور انسانوں پر ہونے والے ظلم وستم کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اُمید اور رجائیت کا راستہ بھی دکھاتی ہے۔ ان کے کلام میں قوموں کی آزادی اور ترقی کی بات ملتی ہےجو نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے لئے ولولہ پیدا کرتی ہے، فیض احمد فیض نے اپنے وقت میں نہ صرف ملکی بلکہ عالمی حالات سے بھی متاثر ہو کر بے شمار نظمیں کہیں۔ انقلاب چین، افریقا کی صورتحال، مشرق وسطیٰ خصوصاً فلسطین کا ذکر بھی ان کے ہاں ملتا ہے۔ فیض کے کلام میں پائی جانے والی آفاقیت ان کی شاعری کو دیگر شعراء سے منفرد بناتا ہے اور اِسی بناء پر وہ ایک عہد ساز شاعر اور مفکر قرار دیئے جاتے ہیں۔ بیسویں صدی کی اردو شاعری میں اقبال کے بعد جو نام اُبھر کر سامنے آئے اُن میں نمایاں ترین نام فیض احمد فیض کا ہے۔ انسان دوستی پر مبنی ان کی شاعری کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ وہ ایشیا کے پہلے شاعر ہیں جنہیں روس کی جانب سے ’’لینن‘‘ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فیض کو ہم سے بچھڑے 29برس بیت گئے لیکن ان کا کلام آج بھی پڑھنے والوں میں امید پیدا کرتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.