فیصل آباد، زہریلی شراب سے 35 ہلاکتیں، سیاسی شخصیت کی مداخلت پر معاملہ دبا دیا گیا

فیصل آباد: 25 جولائی 2013 کو شراب نوشی سے35 افراد ہلاک ہو گئے تھے، ورثا آج تک اپنے جوان بیٹوں کی موت کے غم میں نڈھال ہیں۔ ملزمان تو پکڑے گئے مگر پولیس اس کے بعد شاید سو گئی ہے۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ 24اور 25جولائی کی رات فیصل آباد میں تقریباً 45 افراد نے زہریلی شراب پی تھی۔ اگلے دو روز کے دوران 35 افراد موت کی آغوش میں چلے گئے۔ پہلے تو پولیس نے اس معاملے پر کان ہی نہیں دھرا اور تمام معاملے کو چھپانے کی کوشش کی مگر ہلاکتوں کی اتنی تعداد میڈیا پر آنے کے بعد پولیس نے ایکشن لیا اور 2مقدمات درج کر کے زہریلی شراب پینے والے ملزمان بابر عرف لنگڑا، یونس مسیح، حبیب اللہ، محمد ارشد، سنی، ظفر عرف کالا، شگفتہ اور ارشاد کو گرفتار کر لیا۔ جب ان ملزمان کی تفتیش کی گئی تو راز کھلا کہ حبیب اللہ جو کہ اپنے علاقے میں ڈاکٹر پونڈا کے نام سے مشہور ہے نے ڈیڑھ سال قبل اپنی بیٹی کی شادی کے موقع پر گھر کو رنگ کروانے کے لیے T20 کیمیکل لاہور سے منگوایا تھا۔ یہ کیمیکل رنگ میں چمک پیدا کرنے کے لیے ڈالا جاتا ہے۔ T20 کیمیکل کے 3کین بچ گئے تھے جو حبیب اللہ اور اس کے بیٹے ارشد نے 24 جولائی کو یونس مسیح کو 4100 روپے میں فروخت کر دیے ۔ یونس مسیح نے اس کیمیکل میں 2ڈرم شراب شامل کی اور یہ زہریلی شراب تیار ہو گئی۔ یونس مسیح نے پھر یہ زہریلی شراب بابر لنگڑا ، شگفتہ ، سنی، ظفر، اور ارشاد کو فروخت کی اور ان سے لے کر مختلف لوگوں نے شراب پی۔ بابر لنگڑا نے اپنے گھر پر بھی بہت سے لوگوں کو یہ شراب پلائی۔ جس جس نے اس شراب کا ایک ایک گھونٹ بھی پیا وہ اسپتال ضرور پہنچا۔ جن افراد نے تھوڑی زیادہ پی تھی ان کی موت واقع ہو گئی ۔ پولیس نے گرفتار کو جیل بھی بھجوا دیا۔ مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ جن علاقوں میں شراب اور منشیات فروشی کا کام ہو رہا ہے کیسے ممکن ہے کہ وہاں کے ایس ایچ او کو پتہ ہی نہ ہو؟ اور اگر ان کو پتہ ہے تو پھر کیوں اس حوالے سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی؟پولیس نے کیوں ان شراب فروشوں کو نہیں پکڑا اور 35 زندگیاں ختم ہو گئیں۔ فیصل آباد پولیس کی یاد داشت اس قدر کمزور ہے کہ وہ اس واقعے کو بھول بھی گئی اور کسی بھی منشیات فروش کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ آج بھی شہر منشیات فروشوں اور شراب فروشوں سے بھرا پڑا ہے۔ لوگ شراب اور نشے سے مر رہے ہیں مگر پولیس ہے کہ آنکھیں بند کیے ہوئے ہے ۔ پولیس ذرائع کے مطابق شراب فروش 5 ہزار روپے ہفتہ اور چرس اور ہیروئن بیچنے والے 10 ہزار روپے ہفتہ متعلقہ ایس ایچ او کو دیتے ہیں جس کے بدلے میں وہ انہیں کھلے عام کاروبار کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ پولیس تو ان 35 ہلاکتوں کو بھول گئی مگر جن کے جوان بیٹے مرے وہ نہیں بھولے انہیں اپنے بچوں کی محبت، مسکراہٹ ،شرارتیں سب یاد ہیں۔ پولیس کے اعلیٰ افسران نے وزیر اعلیٰ پنجاب سمیت تمام افسران کو اس شراب میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد سے گمراہ رکھا اور اپنے آپ کو بچایا جبکہ فیصل آباد میں زہریلی شراب پینے سے ہلاکتوں کی تعداد کئی خفیہ ادارے بھی زیادہ بتا چکے تھے لیکن ایس ایس پی انوسٹی گیشن رائے ضمیر اور ایس ایس پی آپریشن کی طرف سے آئی جی پنجاب کو بھجوائی جانے والی رپورٹس میں لکھا گیا ہے کہ فیصل آباد میں شراب سے 17 افراد کی ہلاکت ہوئی لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ سابق سی پی او عبدالرزاق چیمہ نے صرف 2 تھانوں کے ایس ایچ اوز سابق ایس ایچ او بٹالہ کالونی اور سابق ایس ایچ او گلبرگ حاجی عمر حیات کو معطل کیا تھا۔ انکوائری رپورٹ میں پولیس ملازمین کو گناہگار ٹھہرایا گیا تھا لیکن اس انکوائری کے بعد پولیس افسران ایک سیاسی شخصیت کی مداخلت کے بعد کوئی کارروائی نہ کر سکے۔ زہریلی شراب پینے میں ہلاکتوں کے بعد ان کے ورثا بے یار و مددگار ہیں۔ یہاں تک کہ کوئی اعلیٰ سیاسی شخصیت بھی ان کو پوچھنے نہیں آئی ہے۔ نہ وزیر اعلیٰ نے آنا گوارہ کیا نہ ہی اس واقعے کی انکوائری کے لیے کوئی ٹیم بنائی گئی۔ کسی وزیر نے بھی ان کے گھر آنا مناسب نہیں سمجھا ۔ صرف ایک اقلیتی وزیر ان کا حال پوچھنے آیاتھا مگر کسی بھی قسم کی حکومتی امداد کا اعلان نہیں کیا۔ حکومت کے رویے سے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اس معاملے میں دلچسپی ہی نہیں لے رہی۔

تبصرے بند ہیں.