ریاض (این این آئی )سعودی عرب کی الراجحی کمپنی کے ریسرچ کے شعبے کے سربراہ مازن السدیری نے کہا ہے کہ عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی فِچ کی ملکوں کی اقتصادی درجہ بندی میں تبدیلی سنہ 2008 میں عالمی مالیاتی بحران کے بعد سے سامنے آئی تھی جب ترقی یافتہ ممالک میں جی ڈی پی پر قرضے میں اضافے کا تناسب 80 فی صد ہو گیا تھا۔میڈیارپورٹس کے مطابق سعودی ماہر معیشت کا کہنا تھا کہ ترقی پذیر ممالک منفی طور پر متاثر ہونا شروع ہو گئے ۔ امریکا اور چین کے مابین سنہ 2018 سے جاری تجارتی جنگ کے بعد ترقی پذیر ممالک کی نئی درجہ بندی کی گئی ہے۔ کرونا کی وبا نے بھی ان ملکوں کی معیشت پر دبائو ڈالا اور جی ڈی پی پر اوسطا قرض 60 فی صد ہوگیا ہے۔الراجحی کمپنی کے عہدیدار نے انٹرویو دیتے ہوئے وضاحت کی کہ سعودی عرب کی صورتحال انتہائی پرسکون ہے۔ قرض سے جی ڈی پی کا تناسب ترقی پزیر ممالک کی اوسط سے بہت کم ہے۔ مملکت کا قرض کاحج 34 فی صد ہے جب کہ قرض کی حد کو 50 فی صد تک بڑھانے کا امکان ہے۔ مملکت کے مالی منصوبے کے مطابق قرض کو 31 سے 34 فیصد کے درمیان برقرار رکھنا ہے۔ سعودی عرب میں مقامی قرض کا حجم 850 ارب سے بڑھ کر ایک کھرب ریال ہوجائے گا لیکن مملکت جی ڈی پی کی نمو پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آنے والے سالوں کے لیے تخمینہ شدہ خسارہ سال 2023 کے لیے لگ بھگ 225 ارب ریال ہے جو سعودی عرب کے مالی ذخائر کا 60 فی صد ہے اور اس میں سے بیشتر قرضے کے ذریعہ فراہم کیا جائے گا۔تاہم قرض کی بلند ترین شرح بہت کم ہے اور اسے سرمایہ کاری کی درجہ بندی کے مقابلے میں معمولی اضافہ سمجھا جاتا ہے۔السدیری نے اس بات پر زور دے کر کہا کہ ترقی پذیر ممالک میں ملکی اور غیر ملکی ذخائر اور قرض کے لحاظ سے مملکت کی مالی حیثیت بہترین ہے۔
تبصرے بند ہیں.