فلم ’’انجمن‘‘ نے رونا لیلیٰ کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا

لاہور: رونا لیلیٰ پاکستان فلم کی پلے بیک سنگنگ کا ایک ایسا نام ہے رونا لیلی نے ’’جو آئی اور چھا گئی‘‘ کے مترادف گائیکی کے میدان میں اپنی منفرد شناخت بنائی۔ رونا لیلیٰ 17نومبر 1952ء کو بنگلہ دیش (مشرقی پاکستان) کے شمال مشرقی علاقے کے ایک متوسط طبقے سے گھرانے میں پیدا ہوئی ۔والدہ بھی گلوکارہ تھی لہذا یہ فن اسے ورثہ میں ملا، اس کی بڑی بہن دینا لیلی بھی بے حد خوش گلو تھی اور رونا کے مقابلے اس کے خدوخال اور نقوش نسبتا پرکشش بھی تھے۔ان کے والد امداد حسین کسٹم میں تھے اور کراچی سے بنگلہ دیش روانگی کے وقت اور غالبا سنیئر آفیسر تھے۔ رونا کی والدہ پروفیشنل گلوکارہ نہیں تھیں وہ صرف خاندان ، دوستوں ، عزیز واقارب کی نجی محفلوں میں گا یا تھیں۔ البتہ وینا لیلی قدرے پروفیشنل گلوکارہ بن چکی تھی ۔ایک مرتبہ وینا نے کسی تقریب میں پرفارم کرنا تھا مگر طبعیت خراب ہونے پررونالیلی نرونا لیلی نے بحثیت گلوکارہ اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز 13برس کی عمر میں 1966ء میں ہدایتکار الحامد کی فلم ’’ہم دونوں‘‘ سے کیا۔ اس فلم میں ان کا گانا’’ان کی نظروں سے محبت کا جو پیغام ملا‘‘ بے حد مقبول ہوا۔ ’’گھروندا ‘‘ میں گیت ’’ کیسا گھروندا ٹوٹا‘‘ بھی مقبول ہوا۔ ہدایتکار حسن طارق کی مشہور فلم ’’انجمن‘‘ نے رونا لیلی کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ۔ حسن طارق کی کلاسیکل فلم ’’امراؤ جان ادا‘‘ کا گانا ’’کاٹے نہ کٹیں ریتاں‘‘ آج بھی روز اول کی طرح مقبول ہے۔ رونا لیلی نے اردو کے علاوہ پنجابی فلموں کے لیے بھی گانے گائے جن میں سے ایک ہدایتکار حیدر چوہدری کی فلم کے لیے ’’دو دل اک دوجے کولوں دور ہوگئے‘‘ اور اقبال کشمیری کی مشہور فلم ’’بابل‘‘ کا یہ گیت ’’میں کھولاں کہیڑی کتاب‘‘ قابل ذکر ہیں۔بنگلہ دیش کے معرض وجود میں آنے کے بعد رونا لیلی بھی چلی گئیں جہاں انھوں نے بنگلہ دیشی فلموں کے ساتھ بالی وڈ انڈسٹری میں انٹری دی اور ’’اگنی پتھ‘‘ سمیت دیگر فلموں کے لیے آواز کا جادو جگایا ۔ رونا لیلی بھارت کے میوزک پروگراموں میں جج کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ے اس تقریب میںپرفارم کیا۔

تبصرے بند ہیں.