اسلام آباد(کامرس رپورٹر) وفاق نے صوبوں سے کہا ہے کہ وہ قومی خزانہ کمیشن (این ایف سی) کے حصص کی مناسبت سے قبائلی علاقوں کی خصوصی ترقی اور صحت کے شعبے میں بہتری کے لیے آئندہ سال اپنے اپنے بجٹ میں سے مشترکہ طور پر 110 ارب روپے مختص کریں۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات اسد عمر نے کہا کہ چین سے دوطرفہ میکانزم کے تحت انڈپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) سے متعلق معاملات اٹھانے پر اتفاق کیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ جی 20 ممالک کے ذریعہ پاکستان کے قرضوں کی نام نہاد ری شیڈولنگ کا ملک کو کوئی مالی فائدہ نہیں پہنچا۔انہوں نے وضاحت دی کہ جی20 ری شیڈولنگ سے پاکستان کو کوئی مالی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ یہ نیٹ پریزنٹ ویلیو (این پی وی) نیوٹرل ہوگا اور قرض کی ادائیگی 18 ماہ کے لیے موخر ہوگی اور اس کے بعد ان 18 ماہ کے سود بھی بقایا جات پر لاگو ہوجائیں گے قابل ادا بن جائیں گے، انہوں نے کہا کہ قرض موخر ہونے سے ملک کو صرف اس حد تک فائدہ ہوگا کہ نقد بہاو¿ میں تاخیر ہوگی۔اسد عمر کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کورونا وائرس ردعمل سے متعلق منصوبوں کے لیے 70 ارب روپے کی کثیر مقصدی اسکیم مختص کی ہے اور وہ اس میں سے 50 ارب روپے پورے ملک میں خصوصی صحت کے شعبے کے منصوبوں کے لیے برابر کی بنیاد پر خرچ کرنا چاہتی ہے۔انہوں نے کہا کہ صوبوں سے تمام ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں (ڈی ایچ کیو) کی صورتحال بہتر کرنے کے لیے 50 ارب روپے کی مساوی رقم فراہم کرنے کو کہا گیا ہے، 100 ارب روپے کی اس رقم سے ضلعی اسپتالوں کو اس سطح پر بہتر کرنے کے لیے یہ ملک کا اب تک کا سب سے بڑا اقدام ہے جس میں مریضوں کو صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی یا ہسپتالوں پر دباو¿ کی وجہ سے شہروں کی جانب جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی جیسا کہ حال ہی کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے دیکھا گیا تھا، اس معاملے پر صوبوں کے ساتھ تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔وزیر نے بتایا کہ ملک کی پوری قومی قیادت نے تقریبا دو سال قبل وعدہ کیا تھا کہ قبائلی اضلاع کی ترقی پر اگلے 10 سالوں کے لیے ہر سال مشترکہ طور پر 100 ارب روپے خرچ کریں گے، یہ اقدام تقریباً ایک سال کی تاخیر کے بعد شروع ہوا اور رواں سال تقریبا 24-25 ارب روپے اس پر خرچ ہوسکتے ہیں اور اگلے سال اسے 60 ارب روپے کردیا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ انہوں نے یہ معاملہ گزشتہ سال این ایف سی کی سطح پر اٹھایا تھا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنے اپنے حصص کے مطابق فنڈز مہیا کرنے چاہئیں، مرکز نے اب تک 40 فیصد وفاقی حصہ فراہم کردیا ہے اور توقع کرتے ہیں کہ صوبے 30 سے 35 سال تک تباہی اور محرومی کا سامنا کرنے والے اس خطے کے لیے اپنا حصہ ادا کریں گے۔انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقے کے نام پر بہت سارے فنڈز خرچ ہو چکے ہیں اور ڈالر وصول ہوئے ہیں لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں مل سکا ہے جبکہ عدم استحکام کے دشمن قوتیں اس خطے میں بہت متحرک ہیں جس کی قیمت تمام صوبوں کو برداشت کرنا ہوگی، آئی پی پیز پر چینی حکومت کے مطالبے پر تحقیقاتی رپورٹ کے اجرائ کو وفاقی کابینہ کی جانب سے اس کی اشاعت کی منظوری کے بعد روکا گیا ہے، کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ چین سے تعلقات کی حساسیت فیصلے کا ایک پہلو ہے۔انہوں نے وضاحت کی کہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی میکانزم موجود ہے جس پر اس طرح کے سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں، حکومت اس معاملے کو دو طرفہ میکانزم کے تحت پہلے ہی اٹھا چکی ہے اور چینی حکومت اس کے لیے تیار ہے۔انہوں نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت مختلف منصوبوں کے لیے تقریباً 77 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جن میں نجی شعبوں میں تیار ہونے والے نجی منصوبے شامل نہیں ہیں ، سی پیک کے تحت توانائی کے شعبے میں ٹرانسمیشن منصوبوں سمیت مزید منصوبے آرہے ہیں کیونکہ اگلا چیلنج کراچی سمیت جنوبی حصے میں توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب ہے اور بجلی پیدا کرنے والے منصوبے زیادہ تر شمال میں واقع تھے۔انہوں نے کہا کہ لاہور-مٹیاری ٹرانسمیشن لائن پر ترقی کا کام جاری ہے جبکہ کراچی سے پشاور تک ریلوے لائن کا ایک نیا میگا پروجیکٹ اگلے سال کے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں شامل کیا گیا ہے، اب دونوں فریقین کو 7 ارب ڈالر سے زیادہ کے منصوبے کے لیے مالی قربت حاصل کرنا ہوگی۔ان کا کہنا تھا کہ چین نے اس منصوبے کے لیے تقریبا 85 فیصد کی مالی اعانت کی پیش کش کی ہے جبکہ ہم چاہتے ہیں کہ اس کا حصہ 90 فیصد تک بڑھ جائے، حکومت نے ایم ایل ون منصوبے کے لیے پی ایس ڈی پی میں مختص کردیا ہے اور امید ہے کہ بہت جلد 90 فیصد چینی فنڈز حاصل کرلیے جائیں گے اور آئندہ سال فروری سے اپریل تک اس منصوبے کی باضابطہ تعمیر شروع کر کے نو سالوں میں اس کی تکمیل ہوگی۔انہوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت بجلی کی دو ہزار میگاواٹ صلاحیت کے حامل دو بڑے منصوبے اب مکمل ہو چکے ہیں اور اگلے سال کے ترقیاتی منصوبے میں ڑوب سے کچلاک، یارِک سے ڑوب اور برہان سے ہکلہ سمیت تین بڑے سڑکوں کے منصوبوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت نے رواں سال پی ایس ڈی پی کے لیے 701 ارب روپے مختص کیے ہیں جس میں پلاننگ کمیشن کے تحت 500 ارب روپے کے منصوبوں اور وزارت خزانہ کے ذریعے لگ بھگ 151 ارب روپے شامل ہیں۔کورونا وائرس جس کی وجہ سے تمام ترقیاتی سرگرمیاں رکک گئی تھیں، کے باوجود پلاننگ کمیشن نے 505 ارب روپے میں سے 442 ارب روپے خرچ کیے تھے پھر بھی منصوبہ بندی کمیشن 80 فیصد فنڈنگ کے استعمال کو حاصل کرنے میں کامیاب رہا حالانکہ زیادہ سے زیادہ خرچ عام طور پر آخری سہ ماہی میں ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت 30 جون کو رواں مالی سال کے اختتام تک مختص کیے گئے 701 ارب روپے میں سے مجموعی طور پر 530 ارب روپے کو استعمال کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔
تبصرے بند ہیں.