زمینی حقائق پرزکوٰة کا نیا نظام لانے کی تجویز

اسلام آباد(سٹاف رپورٹر) اسلامی عالم اور سپریم کورٹ کے شریعہ اپیل بینچ کے سابق جج مفتی تقی عثمانی نے بالخصوص 18 ویں ترمیم کے بعد پورے نظام زکوٰةکو زمینی حقائق پر مشتمل نئے نظام سے تبدیل کر نے کی تجویز پیش کی ہے، میڈیا رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں اپنی رائے پیش کرتے ہوئے انہوں نے تجویز دی کہ اگر زکوٰة کے نظام کو جاری رکھنا ہے تو اس پر اچھی طرح نظرِ ثانی کرنی چاہیے اور زمینی حقائق پر مشتمل نئے نظام سے تبدیل کرنا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ عبادت کی ایک مقدس قسم زکوٰة، بدعنوانی اور بد انتظامی کا شکار ہوجائے۔خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے نوول کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے اٹھائے گئے اقدامات پر ازخود نوٹس کی سماعت میں مفتی تقی عثمانی اور اسلامی نظریاتی کونسل سے اس سوال پر رائے طلب کی تھی کہ کیا زکوٰة کی رقم اور بیت المال کو محکموں کے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی یا روزمرہ اخراجات کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔یہ ہدایات اس وقت دی گئی تھیں جب زکوٰة اور بیت المال کے فنڈز کے تحت رقوم کی تقسیم میں شفافیت کا فقدان سپریم کورٹ کے سامنے آیا تھا، جس کے بعد چیف جسٹس گلزار احمد نے 4 مئی کو 5 رکنی بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے زکوٰة کے معاملے میں رائے دینے پر مفتی تقی عثمانی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس رائے کا مطالعہ کیا گیا اور اس میں عدالت کی رہنمائی کے لیے قابلِ قدر مواد پایا گیا، عدالت عظمیٰ نے مفتی تقی عثمانی کی رائے کو عدالتی ریکارڈ میں شامل کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔اپنی رائے میں مفتی تقی عثمانی نے کہا تھا کہ حکومتی سطح پر زکوٰة کو سنبھالنے کے لیے بہت مضبوط اور منظم نظام کی ضرورت ہے جو اس وقت موجود نہیں، ان کا کہنا تھا کہ اگر موجودہ نظام کو نئے نظام سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا تو اس خیال کو ترک کرنا بہتر ہوگا کہ حکومت زکوٰة کی تقسیم کا انتظام کرے، انہوں نے کہا کہ ’عوام کو مکمل بھروسے کے ساتھ براہِ راست خود غریبوں کو زکوٰة دینے اور مطمئن ہونے دیں کہ ان کی زکوٰة مستحقین تک پہنچی ہے، مفتی تقی عثمانی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ عوام کا نظامِ زکوٰة سے اعتماد اٹھ گیا ہے اور وہ حکومت کو زکوٰة کی ادائیگی سے گریز کرتے ہیں اور اس کے لیے یا تو رمضان سے قبل بینک اکاو¿نٹس میں رکھی ہوئی بھاری رقم نکال لیتے ہیں یا یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کا ’فقہ‘ ان چیزوں پر زکوٰة کی ادائیگی کی اجازت نہیں دیتا۔انہوں نے کہا کہ کچھ علما کی بھی یہ رائے ہے کہ ماخذ پر زکوٰة کی کٹوتی کی شریعت میں اجازت نہیں اور جب رقم منہا کرلی جاتی ہے تب بھی زکوٰة کی فرضیت ختم نہیں ہوتی، مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ 2010 میں 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد نظامِ زکوٰة صوبوں کے پاس آگیا اور وفاقی زکوٰة اور عشر آرڈیننس 1980 کسی حد تک منسوخ ہوگیا اور صوبوں نے اپنے خود کے زکوٰة اور عشر قوانین اختیار کرلیے، ان کا مزید کہنا تھا کہ عشر کی وصولی کو چاروں صوبوں نے بالکل ختم کردیا اور اس حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں ملی بالخصوص عشر اب نہیں لیا جاتا۔رائے میں کہا گیا کہ عملی طور پر زکوٰة صرف بینکوں کے ذریعے ماخذ پر کاٹی جاتی ہے اور وفاقی حکومت کے اکاو¿نٹ میں جمع کروادی جاتی ہے جو صوبوں میں آبادی کے لحاظ سے ان فنڈز کو تقسیم کرتی ہے، مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ نبی کریمﷺ اور خلفائے راشدین کے دور میں مختلف افراد کو ملازم رکھا گیا تھا جو فصل کی کٹائی کے وقت ان کے پاس جاتے جنہوں نے زرعی پیدوار کی ہوتی اور ان کی فصل سے عشر اور مویشی مالکان سے ایک خاص متعین فارمولے کے تحت مویشیوں کی زکوٰة جمع کرتے تھے، یہ افراد زیادہ تر زکوٰة اور عشر لا کر بیت المال (سرکاری خزانے) میں جمع کروادیتے تھے، جب زکوٰة بیت المال کا حصہ بن جاتی تو ریاست اسے قرآن میں بتائی گئی 8 چیزوں میں استعمال کرتی اور جو افراد زکوٰة جمع کرتے انہیں ان کی مزدوری زکوٰة فنڈ سے ادا کی جاتی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ ظاہر سی بات ہے زکوٰة کا مقصد غریبوں اور ضرورت مندوں کو مالی مدد فراہم کرنا ہے، یہ کبھی تصور نہیں کیا گیا کہ پوری زکوٰة یا اس میں سے بھاری رقم کو ان پر خرچ کیا جائے جو اس کے لیے کام کرتے ہیں، تاہم مسلمان فقہا نے مختلف اوقات کی صورتحال کے حالات کے مطابق ان پر اخراجات کو ایک خاص حد تک محدود کردیا ہے۔ رائے میں کہا گیا کہ امام شافعی کے مطابق ملازمین پر اخراجات وصول ہونے والی مجموعی زکوٰة کی رقم کے 8 ویں حصے سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے، علاوہ ازیں اپنی رائے میں مفتی تقی عثمانی نے عدالت کی توجہ اصل قانون میں ہونے والی مختلف ترامیم کے سبب زکوٰة فنڈ کی خستہ حال صورتحال کی جانب بھی مبذول کروائی۔

تبصرے بند ہیں.