زلزلے سے متاثرہ کئی علاقوں میں اب تک امدادی کام شروع نہیں ہوسکا، وزیر داخلہ کا اعتراف

اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کہتے ہیں کہ زلزلے سے متاثرہ علاقے میں سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے امدادی کاموں میں مشکلات پیش آرہی ہیں اور کئی مقامات پر اب تک امدادی سرگرمیاں شروع نہیں ہوسکیں۔ قومی اسمبلی میں زلزلے سے متعلق اپنا پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں زلزلے سے 500 کلومیٹررقبہ متاثر ہوا، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق زلزلے سے اب تک 348 افراد جاں بحق جبکہ 530 زخمی ہوئے ہیں، آ واران میں 305 افراد جاں بحق اور 440 افراد زخمی ہوئے ہیں جبکہ کیچ میں کیچ میں 43 اموات اور 73 زخمی ہیں تاہم صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کا خدشہ ہے کہ اس قدرتی آفت سے جاں بحق افراد کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ املاک کی تباہی سے ہونے والے نقصان کا تخمینہ ابھی نہیں لگایا جاسکتا۔ وفاقہ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں ہر ممکن اقدامات کئے جارہے ہیں۔ نیشنل ڈیزسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے سربراہ متاثرہ علاقے میں موجود ہیں، وزیر اعلیٰ بلوچستان بیرون ملک تھے تاہم وہ بھی ہنگامی طور پر پاکستان پہنچ رہے ہیں جبکہ وہ خود کل متاثرہ علاقے کا دورہ کریں گے۔ اس کے علاوہ پاک فوج اور سویلین ادارے آواران اور کیچ میں پھیلے ہیں جو امدادی کاموں میں مصروف ہیں، اس وقت پاک فوج کے ایک ہزار جبکہ ایف سی کے 300 جوان امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں، وفاق نے اپنے تمام ہیلی کاپٹرز امدادی کاموں کے لئے مخصوص کردیئے ہیں جبکہ 4 خصوصی ٹیمیں بھی بھیجی گئی ہیں جو متاثرہ علاقوں میں ملبے تلے دبے افراد اور لاشوں کی نشاندہی کرنے والے آلات سے لیس ہیں۔ چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ فوج، ایف سی، این ڈی ایم اے ، پی ڈی ایم اے اور دیگر اداروں کی جانب سے ہزاروں خیمے، خوراک، پانی اور دیگر عام ضرورت کا سامان بھجوایا جارہا ہے۔ تاہم سب سے بڑا مسئلہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں سڑکیں نہ ہونا ہے، جس کی وجہ سے امدادی ٹیموں کو مشکلات پیش آرہی ہیں جبکہ ایک جگہ جب ہیلی کاپٹرز امدادی سامان لے کر گئے تو ان پرراکٹ فائرکئےگئے،ان ہی مشکلات کے باعث کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں تک ہماری رسائی اب تک نہیں ہوسکی ہے۔

تبصرے بند ہیں.