لاہور (نیوز ڈیسک) اسلام آباد سپریم کورٹ نے تمام ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کو ایک طرف کرتے ہوئے حکم دیا کہ 28 سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنے والے قتل کا مجرم صدارتی آرڈیننس 2001 کے تحت سزائے موت سے خلاصی کا حقدار ہے کیونکہ جرم مرتکب کرتے وقت وہ نابالغ تھا۔
ایک انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 12 برس میں محمد انور کا معاملہ بدستور قائم رکھنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عدالت عظمی نے 1993 میں قتل کیس میں سیشن کورٹ کے علاوہ لاہور ہائیکورٹ (ایل ایچ سی) کے فیصلوں کو ایک طرف رکھ دیا۔
تاہم ایک تفصیلی فیصلے میں جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 324 (اقدام قتل) اور ڈی 337 کے الزامات کو برقرار رکھا۔
نو عمر انور کو 6 مارچ 1993 کو کرنے والے جرم کی پاداشت میں 23 مارچ 1993 کو گرفتار کیا گیا تھا۔
اسے 1998 میں سیشن عدالت نے قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی تھی۔
انہوں نے ڈیتھ سیل میں تقریباً دو دہائیاں گزاریں لیکن محمد انور نے امید نہیں چھوڑی کیوں کہ انہوں نے جرم کے وقت نابالغ ہونے کو ثابت کرنے کےلیے ایک کے بعد عدالت سے رجوع کرکے انصاف کا مطالبہ کیا۔
عدالت عظمی کے تین رکنی بینچ نے ریکارڈ پر دستیاب مواد کی بنیاد پر اس معاملے کو اٹھانے میں ترجیح دی اور آخر کار 22 مارچ 2021 کو فیصلہ کیا۔
عدالت نے معاملے کو ایڈیشنل سیشن جج کے حوالے کرنے میں دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔
جسٹس منظور احمد ملک کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ ان کے ‘بالغ یا نابالغ’ ہونے سے متعلق فیصلہ ایک یا دیگر تکنیکی وجوہات کی بنا پر عدالتیں نہیں کرسکیں۔
بیچ نے باور کرایا کہ کہ کس طرح محمد انور کو پی پی سی کے سیکشن 302 (بی) کے تحت 27 جون 1998 کو ایڈیشنل سیشن جج وہاڑی نے سزا سنائی۔
اس کے بعد ایل ایچ سی ملتان بینچ نے سزا اور سزائے موت برقرار رکھتے ہوئے 25 جولائی 2001 کو ان کی اپیل خارج کردی۔
انہوں نے عدالت عظمیٰ کے سامنے ایک درخواست دائر کی جس نے اسے 11 اکتوبر 2007 کو مسترد کرتے ہوئے سزائے موت کو بھی برقرار رکھا۔
بعدازاں مجرم نے ایک نظرثانی درخواست دائر کی تھی جسے خارج کردیا گیا تھا۔
13 دسمبر 2001 کو وزارت داخلہ نے صدارتی آرڈر (پی او) کو ان مجرم قیدیوں کی سزائے موت میں خصوصی معافی کی منظوری کا نوٹی فکیشن جاری کیا جو جووینائل جسٹس سسٹم آرڈیننس 2000 کے تحت نابالغ ہیں۔
ایسے افراد کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کردی گئی بشرطیکہ سزائے موت قصاص یا کسی اور ہود قوانین کے بجائے تازیر کے تحت دی گئی تھی۔
صدارتی آرڈیننس کی بنیاد پر محمد انور نے اپنی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے کے لیے پنجاب کے سیکریٹری سے رجوع کیا کہ جب ان سے جرم سرزد ہوا تب ان کی عمر 18 سال سے کم تھی۔
لیکن ان کی درخواست پر کوئی فیصلہ نہیں ہوا تو محمد انور نے وہاڑی میں سیشن عدالت میں درخواست منتقل کردی لیکن یکم جولائی 2009 کو درخواست مسترد کردی گئی۔
محمد انور نے ایک رٹ پٹیشن دائر کی لیکن 5 مئی 2015 کو بھی نمٹا دی گئی تھی جس میں محکمہ داخلہ پنجاب کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ 8 مئی 2015 تک فیصلہ کریں اور اس کی رپورٹ لاہور ہائیکوٹ چیمبر میں پیش کریں۔
تاہم محکمہ داخلہ نے جواب دیا کہ 2003 میں ضیا اللہ بمقابلہ نجیب اللہ کیس میں سپریم کورٹ کو مجرم کی عمر کا تعین کرنا تھا۔
بعدازاں محمد انور نے دوبارہ سیشن جج وہاری سے رجوع کیا لیکن ان کی استدعا 29 جون 2015 کو ایک بار پھر اس بنیاد پر خارج کردی گئی کہ عدالت کے روبرو کوئی مقدمہ زیر سماعت نہیں ہے۔
محمد انور نے دوبارہ لاہور ہائیکورٹ کے سامنے سیشن جج کے حکم کو چیلنج کیا اور عدالت نے سیشن جج کو معاملہ نمٹانے کی ہدایت کی۔
تاہم سیشن جج نے ایک مرتبہ پھر درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ محکمہ داخلہ کے پاس مجرم کی کم عمری سے متعلق کوئی نمائندگی زیر التواء نہیں ہے اور اس کی سزائے موت کی توثیق سپریم کورٹ نے کر دی ہے لہذا اس وجہ سے عمر کے معاملے کا تعین نہیں ہوسکتا۔
محمد انور نے ایک مرتبہ پھر ایل ایچ سی کے سامنے اس حکم کو چیلنج کیا جس عدالت نے 11 فروری 2015 کو مسترد کردیا کہ ماضی اور بند ہونے والے کیس کو دوبارہ کھولنا ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے سزا سنانے سے انکار کردیا۔
انہوں نے ایک بار پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا جس نے ان کی درخواست کو اپیل میں تبدیل کردیا اور سیشن کورٹ کے ساتھ ہائیکورٹ کے فیصلوں کو بھی ایک طرف رکھ دیا اور متعدد دستاویزات پر انحصار کرنے کے بعد قرار دیا کہ محمد انور نے جس وقت جرم کو مرتکب ہوا تب وہ نابالغ تھا اس لیے جووینائل جسٹس سسٹم آرڈیننس 2000 کے سیکشن 7 کے تحت وہ 13 دسمبر 2001 کے صدارتی آرڈیننس کے فائدہ اٹھانے کا حقدار ہے۔
تاہم عدالت نے پی پی سی کی دفعہ اقدام قتل اور ڈی 337 کے الزامات کو برقرار رکھا۔
تبصرے بند ہیں.