لاہور (نیوز ڈیسک) فرانسیسی سفارت خانے نے تمام فرانسیسی شہریوں اور کمپنیوں کو عارضی طور پر پاکستان چھوڑنے کا مشورہ دیا ہے۔
غیر ملکی خبررساں ادارے ‘اے ایف پی’ کی رپورٹ کے مطابق فرانسیسی سفارت خانے کی جانب سے یہ پیش رفت گزشتہ کئی روز سے پاکستان میں جاری پُر تشدد مظاہروں کے بعد سامنے آئی جس نے ملک کے بڑے حصے کو مفلوج کر رکھا تھا۔
فرانسیسی شہریوں کو ارسال کردہ ای میل میں سفارت خانے نے کہا کہ ‘پاکستان میں فرانسیسی مفادات کو لاحق سنگین خطرات کے باعث فرانسیسی شہریوں اور کمپنیوں کو عارضی طور پر ملک چھوڑنے کا مشورہ دیا جاتا ہے’۔
ای میل میں کہا گیا کہ ‘یہ روانگی موجودہ کمرشل ایئر لائنز کے ذریعے انجام دی جائے گی’۔
دوسری جانب فرانسیسی سفارت خانے میں پریس اتاشی ویرونک وینگر نے اس بات کی تصدیق کی کہ ‘ہم نے احتیاطی طور پر پاکستان میں موجود اپنے تمام شہریوں کو اگر ممکن ہو تو ملک چھوڑنے کا مشورہ دیا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ احتجاجی مظاہروں نے فرانسیسی شہریوں کے لیے سیکیورٹی کے سنگین خطرات پیدا کردیے ہیں، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارا سفارتخانہ ابھی بند نہیں ہوا لیکن محدود عملے کے ساتھ کام کررہا ہے۔
خیال رہے کہ ایک فرانسیسی میگزین کی جانب سے پیغمبر اسلام ﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کرنے پر صدر ایمانوئیل میکرون کی حمایت کے بعد کئی ماہ سے پاکستان میں فرانس مخالف جذبات پائے جاتے ہیں۔
مذکورہ اقدام کے بعد ملک بھر میں شہریوں نے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم بھی چلائی تھی اور اس سلسلے میں مظاہرے بھی کیے گئے تھے۔
دوسری جانب تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے بھی فرانس میں شائع ہونے والے گستاخانہ خاکوں پر میں فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے اور فرانسیسی اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کرنے کے مطالبے کے ساتھ احتجاج کیا تھا۔
جس پر حکومت نے گزشتہ برس 16 نومبر کو ٹی ایل پی کے ساتھ ایک سمجھوتہ کیا تھا کہ اس معاملے کا فیصلہ کرنے کے لیے پارلیمان کو شامل کیا جائے گا اور جب 16 فروری کی ڈیڈ لائن آئی تو حکومت نے سمجھوتے پر عملدرآمد کے لیے مزید وقت مانگا۔
جس پر ٹی ایل پی نے مزید ڈھائی ماہ یعنی 20 اپریل تک اپنے احتجاج کو مؤخر کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔
اس حوالے سے گزشتہ ہفتے کے اختتام پر اتوار کے روز سعد رضوی نے ایک ویڈیو پیغام میں ٹی ایل پی کارکنان کو کہا تھا کہ اگر حکومت ڈیڈ لائن تک مطالبات پورے کرنے میں ناکام رہتی ہے تو احتجاج کے لیے تیار رہیں، جس کے باعث حکومت نے انہیں گزشتہ روز گرفتار کرلیا تھا۔
ان کی گرفتاری کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جس نے بہت سے مقامات پر پر تشدد صورتحال اختیار کرلی اور پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں دونوں فریقین کا نقصان ہوا۔
3 روز تک جاری رہنے والے احتجاج کے بعد گزشتہ روز وفاقی حکومت نے ٹی ایل پی پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
تبصرے بند ہیں.