بدامنی، نئے انتخابی رجحانات، موٹر سائیکل ساز کمپنیوں کی توقعات پر پانی پھر گیا
کراچی: ملک میں انتخابی مہم عروج پر ہونے کے باوجود موٹرسائیکلوں کی فروخت محدود ہے جس سے موٹرسائیکل بنانے والی کمپنیوں کی توقعات پر پانی پھر گیا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران ذرائع نقل وحرکت میں موٹرسائیکل کو اہم ترین ذریعہ قرار دیا جاتا ہے، سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور سپورٹرز کی اکثریت انتخابی سرگرمیوں کے دوران موٹرسائیکل کی سواری کو ترجیح دیتی ہے، اسی طرح انتخابی ریلیوں اور جلسے جلوسوں میں آمدورفت کے لیے بھی موٹرسائیکلیں استعمال کی جاتی ہیں تاہم ملک بھر میں موٹرسائیکلوں کی فروخت میں غیرمعمولی کمی کا سامنا ہے۔ تمام بڑی سیاسی جماعتیں اپنے حامیوں اور ووٹرز پر کو راغب کرنے کے لیے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر انحصار کررہے ہیں اور روایتی طریقے ماند پڑے ہوئے ہیں جن میں موٹرسائیکلوں پرنکلنے والی ریلیوں کے رجحان میں کمی سرفہرست ہے۔پاکستان میں چینی ٹیکنالوجی پر مشتمل موٹرسائیکل تیار کرنے والی کمپنیوں کی نمائندہ ’’ایسوسی ایشن آف پاکستان موٹرسائیکل اسمبلرز‘‘ کے چیئرمین صابر شیخ نے بتایا کہ انتخابات نزدیک آتے آتے موٹرسائیکلوں کی فروخت انتہائی محدود ہوچکی ہے، 2008 کے انتخابات میں بھی موٹر سائیکلوں کی فروخت میں کمی کا سامنا تھا اور اس مرتبہ بھی موٹرسائیکلوں کی فروخت پر انتخابات کے کوئی اثرات مرتب نہیں ہورہے، موٹرسائیکلوں کی فروخت میں 50 سے 60 فیصد کمی کا سامنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فی الوقت زیادہ تر موٹرسائیکلیں روزگار کے لیے قسطوں پر خریدی جارہی ہیں، کم آمدن طبقے کے نوجوانوں کی بڑی تعداد اقساط کی بروقت ادائیگیوں میں بھی ناکام ہے جس سے اقساط کی ریکوری میں60 فیصد تک کمی کا سامنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی کی مارکیٹ میں موٹرسائیکلوں کی فروخت دیگر شہروں کے مقابلے میں انتہائی کم ہے جس کی بنیاد ی وجہ شہر میں امن و امان کے مخدوش حالات ہیں، ملک میں بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت اور درآمدات پر بھاری مالیت کے ٹیکسوں کی وجہ سے پہلے ہی 100 میں سے 60 کمپنیاں پیداوار بند کر چکی ہیں اور اس وقت پیداوار جاری رکھنے والی بیشتر کمپنیاں بھی خسارے کا شکار ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ موٹرسائیکل صنعت سازگار حالات کی منتظر ہے اور انڈسٹری کا مستقبل نئی جمہوری حکومت پر منحصر ہے۔
تبصرے بند ہیں.