آئندہ حکومت کیلیے مشرف کے خلاف مقدمہ پہلا امتحان ہوگا

اسلام آباد: بغاوت کیس میں عدالتی کارروائی اختتام کے قریب ہے اورغالب امکان ہے کہ پرویز مشرف کیخلاف غداری کے الزام میں کارروائی کرنے کیلیے دائردرخواستوں پر اگلے ہفتے سپریم کورٹ کا فیصلہ آجائے۔ مشرف کے خلاف آئین توڑنے کے الزام میں بغاوت کے مقدمے کے اندراج کے لیے سپریم کورٹ وفاقی حکومت کوکوئی ہدایت جاری کرتی ہے یانہیں اس کا انحصاردونوں طرف کے وکلاکے دلائل اورمروجہ قانون کی روشنی میں ہو گالیکن ایک بات واضح ہوچکی کہ نگراں حکومت نے بغاوت کے مقدمے میں پڑنے سے معذوری ظاہرکر دی ہے اورسپریم کورٹ کوتحریری آگاہ کر دیاہے کہ نہ تونگراںحکومت کے پاس اس کام کیلیے وقت ہے اورنہ یہ اس کی مینڈیٹ میں شامل ہے جبکہ دوسری طرف پشاورہائیکورٹ سے الیکشن لڑنے کیلیے پرویز مشرف کی رٹ خارج ہونے اوربغاوت کیس میں عدالت عظمٰی کے ججزکے ریمارکس نے ایک بات واضح کردی ہے کہ اس بارقانون پرعمل ہوگا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پرویز مشرف کے وکلانے خاموشی میں چھپے طوفان کی بازگشت سن لی ہے اوربغاوت کیس میں پہلی مرتبہ حالات کی سنگینی کاادارک کرتے ہوئے کیس کی قانونی پہلوں پرزوردینا شروع کر دیا ہے تاکہ اس بار کم از کم یہ الزام نہ لگے کہ پرویزمشرف کو بھی بھٹوکی طرح ان کے اپنے وکلانے مروادیا۔بغاوت کیس میں شروع ہی سے پرویزمشرف کے وکلاکارویہ جارحانہ تھا کبھی بینچ پر اعتراض تو کبھی چیف جسٹس پر،لیکن اب یہ اعتراضات واپس لیے گئے ہیںاور درخواستوں کی قابل سماعت نہ ہونے کاایک اچھا نکتہ اٹھایا گیا ہے۔بینچ نے پرویز مشرف کے وکلاکودفاع کا مکمل موقع دیا ،باربار ایک دلیل دہرائے جانے اورججوں پر کیچڑاچھالنے کے باوجود انھیں سنا گیاتاوقتیکہ جب وکلاکوخود اندازہ ہو گیا کہ اس طرح بات نہیں بنیںگی۔ان درخواستوں میں سپریم کورٹ کافیصلہ جو بھی ہو گا لیکن اس کی حثیت اگلی منتخب حکومت کیلیے ایک آزمائش سے کم نہیں ہوگی یہ کہنابے جا نہیں ہو گاکہ اگلی منتخب حکومت کی شرعات آزمائش سے ہوگی۔

تبصرے بند ہیں.