صدر مسلم لیگ ن اور سابق وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ کامیاب آزاد اراکین کو حکومت بنانے کی دعوت دے دی۔ماڈل ٹاؤن سیکرٹریٹ لاہور میں لیگی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اگر آزاد اراکین حکومت بنا سکتے ہیں تو بڑے شوق سے بنائیں، پی ٹی آئی سپانسرڈ آزاد ممبران ایوان میں اکثریت دکھا دیں تو ہم اپوزیشن میں بیٹھ جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ابھی بھی اس بات پر قائم ہوں کہ نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بنیں گے، پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے جان لڑائیں گے، سب اپنی انا کو ایک طرف رکھیں اور بغل گیر ہوں کے ، دوسری پارٹیوں سے الحاق ہوتا ہے تو شبانہ روز محنت کریں گے۔انہوں نے کہا کہ 8 فروری کا مرحلہ طے ہوچکا ہے، عام انتخابات سے پہلے مختلف خدشات پائے جا رہے تھے، کہا جارہا تھا کہ موسم کی سختی ہے، امن و امان کی صورتحال مخدوش ہے، کہا جا رہا تھا انتخابات اس لئے نہیں ہوسکتے کہ دہشت گردی ہے مگر جب سپریم کورٹ کا انتخابات کے حوالے سے فیصلہ آیا تو خدشات دفن ہوگئے۔لیگی صدر کا کہنا تھا کہ الیکشن والے دن سکیورٹی اداروں نے کردار ادا کیا وہ سب کے سامنے ہیں، الیکشن کمیشن پر بے پناہ الزامات لگائے گئے، کہا جاتا رہا دھاندلی اور لیول پلیئنگ فیلڈ اور طرح طرح کے الزامات لگائے جا رہے تھے، 2013 کے الیکشن میں 35 پنکچر کا الزام کس نے لگایا تھا؟سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ پر حملہ کرنے کی بھڑک ماری گئی، خبریں کھودنے کا ڈرامہ رچایا گیا سب کے سامنے ہے، 35 پنکچر کا بھی حساب ہوگیا، سپریم کورٹ نے کہا الیکشن میں دھاندلی نہیں ہوئی، 35 پنکچر کی آڑ میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ 2018 کے الیکشن میں آر ٹی ایس کو بٹھا دیا گیا، 2018 میں 66 گھنٹوں کے بعد رزلٹ آنا شروع ہوئے، گزشتہ الیکشن میں شہروں کے رزلٹ تاخیر سے آئے اور دیہاتوں کے رزلٹ فوری آئے۔صدر مسلم لیگ ن کا کہنا تھا کہ 2018 میں خواجہ سعد رفیق کے حلقے کی ری کاؤنٹنگ کو روکا گیا، دھاندلی کا سارا عمل گزشتہ کئی الیکشن کے حوالے سے آپ کے سامنے ہے، کونسا الیکشن ہے جس میں دھاندلی کے الزامات نہیں لگے؟ ہم نے چیف جسٹس کا شکریہ ادا کیا ہے، چیف الیکشن کمشنر بھی شکریہ اور تحسین کے مستحق ہیں۔انہوں نے کہا کہ جمعرات کی رات کو 12 فیصد رزلٹ آنے پر ون سائیڈڈ شور ہوا، 10 سے 12 فیصد پر رائے قائم کرنا غیر منطقی اور غیر مناسب بات تھی، دھاندلی کا الزام لگایا جا رہا ہے اور ہمارے سینئر رہنما ہار رہے ہیں، خواجہ سعد رفیق نے کھلے دل سے اعتراف کرتے ہوئے شکست کو مانتا ہوں، فیصل آباد میں رانا ثناء اللہ کو شکست ہوئی، دھاندلی ہوئی تو ہمارے سینئر رہنما کس طرح ہار گئے؟انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگوں کی درخواستوں کو بھی عدالت نے مسترد کیا ہے، آزاد امیدواروں کے یقیناً نمبر زیادہ ہیں، سیاسی پارٹیوں میں مسلم لیگ پہلے پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر ہے، اگلا مرحلہ شروع ہوا چاہتا ہے، اب سارا عمل پارلیمان میں وجود میں آئے گا، اگر آزاد امیدوار حکومت بنا سکتے ہیں تو شوق سے بنائیں۔سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اب آئین کا تقاضا ہے جس کی تعداد زیادہ ہے وہ امیدوار کا اعلان کر سکتا ہے، جو خود کو پی ٹی آئی سپانسرڈ کہتے ہیں وہ شوق سے حکومت بنائیں، اگر وہ حکومت نہیں بنا سکتے تو دوسری پارٹیاں باہمی مشاورت سے فیصلہ کریں گی اس کے علاوہ دوسرا کوئی طریقہ نہیں۔صدر ن لیگ نے کہا کہ 2018 میں ہمیں جھرلو، جعلی ہتھکنڈوں کے ذریعے ہرایا گیا، ہم نے کوئی گملہ نہیں توڑا، ہم نے پارلیمان میں جا کر کالی پٹیاں باندھ کر احتجاج کیا، کون نہیں جانتا کہ 2018 کے الیکشن کو بددیانتی اور خیانت سے چرایا گیا تھا، ہم نے تو نہیں کہا پارلیمنٹ پر حملہ کریں گے، نوازشریف کی قیادت میں نہ ایسا کبھی ہوا اور نہ ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ کورونا میں مل کر بیٹھنے سے انکار کر دیا گیا، ہندوستان کے جہازوں نے پاکستان کی فضاؤں کو عبور کیا، ہماری اپوزیشن اس معاملے پر ساری رات موجود رہی، ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر کے بعد سپہ سالار آئے لیکن وزیراعظم نہیں آئے، گزشتہ 4 سال وزیراعظم چور دروازے سے داخل ہوتے تھے تاکہ اپوزیشن کا سامنا نہ کرنا پڑے، ان کی اس روش کو فاشزم کہیں گے۔شہباز شریف نے کہا کہ اللہ کے فضل سے فیٹف بل ہم نے منظور کرایا، ہم نے ذاتی پسند اور ناپسند سے بالاتر ہو کر فیصلے کئے، میں نے اپنی پہلی تقریر میں چارٹر آف اکانومی کی بات کی، میری چارٹر آف اکانومی کی بات کو حقارت سے ٹھکرایا گیا، اپریل میں ایک آئینی تقاضا پورا کرتے ہوئے اپوزیشن نے عدم اعتماد کے ووٹ کا فیصلہ کیا۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس وقت بھی آئین کی دھجیاں اڑائیں، آئین کو پاؤں تلے روندا گیا، اسمبلی کو توڑا گیا، بھونڈا دوجملوں کا فیصلہ دے کر ڈپٹی سپیکر اور سپیکر اندر چلے گئے، ماضی کی بھیانک داستان ہمارے سامنے ہے، ڈنکے کی چوٹ پر کہتا رہوں گا ریاست کو بچایا اور سیاست قربان کی۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے ریاست کو ڈیفالٹ کے قریب پہنچا دیا تھا، ملک کو چیلنجز ہیں، وقت بے پناہ کم ہے، آپ نے بگڑی معیشت کو سنوارنا ہے، الیکشن میں ہم نے مقابلہ کر لیا، اب ہماری غربت اور مہنگائی کے خلاف جنگ ہے، نوجوانوں کے ہاتھوں میں لیپ ٹاپ دینے ہیں، امن و امان قائم کرنا ہے دہشتگردی کا خاتمہ کرنا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ کوئی حکومت برائے حکومت کا نہیں، یہ پاکستان کو بچانے کا معاملہ ہے ترقی کی جانب لیجانے کا مؤقف ہے، مجھے یقین ہے دوسری پارٹیاں بھی اسی سوچ کی حامل ہیں، اگر حکومت بنانی ہوتی تو یہاں بیٹھ کر ابتدائیہ بیان نہ کرتا۔
تبصرے بند ہیں.