پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ ہونے تک ہر بنچ غیر قانونی ہے: جسٹس قاضی فائز

سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر بنایا گیا 9 رکنی بنچ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق کے علیحدہ ہونے سے ٹوٹ گیا۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائلز کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔لارجر بنچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل تھے۔چیف جسٹس نے وکلاء سے کہا کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی، بنچ میں موجود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں کچھ آبزرویشن دینا چاہتا ہوں۔فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمیں خوشی کا اظہار تو کرنے دیں، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ خوشی کا اظہار باہر کر سکتے ہیں یہ کوئی سیاسی فورم نہیں، حلف کے مطابق میں آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کروں گا۔کیس کی سماعت پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ تعجب ہوا کہ کل رات 8 بجے کاز لسٹ میں میرا نام آیا، اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئیں میں نے کچھ کہنا ہے، عدالت کو اختیار سماعت آئین کا آرٹیکل 175/2 دیتا ہے، میں اپنی قومی زبان اردو میں بات کروں گا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر کوئی بات نہیں کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل ابھی بنا نہیں تھا کہ 13 اپریل کو سپریم کورٹ کے 9 رکنی بینچ نے حکم امتناع دیا، سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی سماعت جولائی تک ملتوی کی، سپریم کورٹ رولز پڑھیں کیا کہتے ہیں، آئین سپریم کورٹ کو سماعت کا اختیار دیتا ہے، جج کا حلف کہتا ہے کہ آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کروں گا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایک قانون ہے، میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل میں بینچ کا حصہ نہیں، کچھ نہیں کہوں گا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں نے 6 ممبر بنچ پر نوٹ تحریر کیا جسے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کرنے کے بعد ہٹا دیا گیا، چیف جسٹس نے 16 مئی کو پوچھا کہ کیا میں چیمبر ورک کرنا چاہتا ہوں یا نہیں، بتاتا ہوں کہ میں نے چیمبر ورک کو ترجیح کیوں دی، ایک قانون بنا دیا گیا بنچز کی تشکیل سے متعلق، کسی پر انگلی نہیں اٹھا رہا لیکن میرے پاس آپشن تھا کہ حلف کی پاسداری کروں یا عدالتی حکم پر بنچ میں بیٹھوں، میری دانست میں قانون کو مسترد کیا جا سکتا ہے معطل نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ مجھ سے جب چیمبر ورک کے بارے میں دریافت کیا گیا تو میں نے 5 صفحات پر مشتمل نوٹ لکھا، چہ مگوئیوں سے بچنے کے لیے میں اس بات کا قائل ہوں کہ ساری بات کھلی عدالت میں ہونی چاہیے، اب تو نوٹ بھی ویب سائٹ سے ہٹائےجاتے ہیں اس لیے اپنا جواب یہیں پڑھ رہا ہوں، میں نے چیف جسٹس کو لکھا نوٹ اپنے تمام کولیگز کو بھی بھیجا، میں نے نوٹ میں کہا کہ میرے ساتھیوں نے قانون معطل کر کے مجھےعجیب کشمکش میں ڈال دیا ہے، وفاقی حکومت نے میری سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا، انکوائری کمیشن کو 19 مئی کو 5 رکنی بینچ نے کام کرنے سے روک دیا؟ میں نے انکوائری کمیشن میں نوٹس ہونے پر جواب بھی جمع کرایا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مجھے جو درخواست رات گئے موصول ہوئی اس میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی بھی درخواست تھی، آج کاز لسٹ میں آخر میں آنے والی درخواست سب سے پہلے مقرر کر دی گئی، میں اس بنچ کو “بنچ” تصور نہیں کرتا۔جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ میں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا، پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا فیصلہ کیا جائے، میرا مؤقف یہ ہے کہ جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجربل کو ٹھکانے نہ لگایا جائے تب تک میں کسی بینچ میں نہیں بیٹھ سکتا، میں اور جسٹس سردار طارق مسعود اس کشمکش میں تھے کہ کیس سننے سے معذرت کریں یا نہیں، سب سے معذرت چاہتا ہوں۔جسٹس سردارطارق مسعود نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے اتفاق کرتا ہوں، اس وقت ہم 9 ججز ہیں اور ہم فیصلہ کر دیتے ہیں اس کیس میں تو کل کو اپیل پر فیصلہ کون کرے گا؟ جب تک ان قوانین کا فیصلہ نہیں ہوتا تب تک ہم بنچ میں نہیں بیٹھ سکتے۔وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کیس نہیں سنیں گے تو 25 کروڑ عوام کہاں جائے گی؟ جس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ 25 کروڑ عوام کا خیال پہلے کیوں نہیں آیا؟وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیس سن لیجیے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اعتزاز احسن کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں آپ کی بہت قدر کرتا ہوں، یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک بار میں اپنے حلف کی خلاف ورزی کردوں، اعتزاز احسن نے کہا کہ گھر کے تحفظ کے لیے کیس سن لیجیے، آپ سپریم کورٹ میں مل بیٹھ کر فیصلہ کرنے کے پابند ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ گھر نہیں سپریم کورٹ ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ دو معزز سینئر ججز نے اعتراض کیا ہے، ممکن ہے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر حکم امتناع ختم ہو جائے، اس عدالت کی روایت کے مطابق 2 سینئرججز کے اعتراض کے بعد تکرار نہ کریں، ہم نے بھی یہ بنچ اپنے آئین کے تحت قسم کے مطابق بنایا ہے۔

تبصرے بند ہیں.