سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ عدلیہ، انتظامیہ اور فوج بحیثیت انتظامی حصہ ملک کے لیے ضروری ہیں۔ پاکستان سے جمہوریت کو نکالنا ملک دشمنی ہے۔لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آج ایک عظیم خاتون کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے یہاں جمع ہوئے ہیں، ناروے کا شمار دنیا کے خوبصورت ممالک میں ہوتا ہے، قانون ساز قانون بناتے ہیں،ایگزیکٹو نفاذ کراتے ہیں۔دنیا میں قیام پاکستان کی مثال نہیں ملتی، بھٹو کا ٹرائل سول کورٹ نے کیا تھا، بھٹو کا ٹرائل کسی ملٹری کورٹ نے نہیں کیا تھا، جس بنچ میں فوجی عدالتوں کے قیام کا معاملہ آیا میں اسکا حصہ تھا، میں جونیئر ترین جج تھا اور اقلیتی فیصلے کا حصہ تھا، اقلیتی فیصلہ ہونے کی وجہ سے وہ رائج تو نہیں ہو سکا تھا مگر انشاءاللہ کوشش جاری رہے گی۔اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نےکہا کہ آئین میں اختیارات کی تقسیم لکھی ہے،اس میں ایک ادارہ عدلیہ بھی ہے، پہلا حملہ اس وقت ہوا جب آئین کو تحلیل کیا گیا، پاکستان کو جمہوری انداز میں حاصل کیا گیا۔ سپین میرا پسندیدہ ملک ہے اسکی وجہ سب کو پتہ ہے، آئین میں اختیارات کی تقسیم لکھی ہوئی ہے اس میں سے ایک ادارہ عدلیہ بھی ہے پاکستان کو جمہوری انداز میں حاصل کیا گیا اس پر پہلا حملہ اس وقت ہوا جب آئین کو تحلیل کیا گیا، جمہوریت پر پہلا حملہ ایک بیورو کریٹ غلام محمد نے کیا، مولوی تمیز الدین نے اسمبلی کی تحلیل کو چیلنج کیا، سندھ ہائیکورٹ نے اسمبلی کی تحلیل کو کالعدم قرار دیا لیکن وفاقی کورٹ نے تحلیل کے احکامات کو برقرار رکھا، دوسرا حملہ 1956ء میں ہوا جب آئین کو بنے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی یہ حملہ سکندر مرزا اور ایوب خان نے کیا یہ بھی ایگزیکٹو کی طرف سے ایک حملہ تھا۔اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے سپریم کورٹ کے سینئر جج کا کہنا تھا کہ جج کا نام لیکر تنقید کریں ادارے پر تنقید نہ کریں، آرمی آفیسر کا نام لیکر تنقید کریں، ادارے پر تنقید نہ کریں، بیوروکریٹ کا نام لیکر تنقید کریں، بطور ادارہ تنقید نہ کریں، پاکستان کو اداروں کی ضرورت ہے۔ ایک وزیراعظم کو اس لیے نکالا گیا کہ اس نے بیٹے سے لی گئی تنخواہ ظاہر نہیں کی تو وہ اچھا مسلمان نہیں رہا لہٰذا اسے نااہل کر دیا گیا ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو جمہوریت کی ضرور ت ہے، پاکستان کو عدلیہ اور ایگزیکٹو کی ضرورت ہے، آئین میں اختیارات کی تقسیم لکھی ہے،اس میں ایک ادارہ عدلیہ بھی ہے۔
تبصرے بند ہیں.