وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ حالیہ مذاکرات کا کوئی ٹھوس نتیجہ نہیں نکلا جبکہ مسلح افواج ملک کو کسی بھی خطرے سے نمٹنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہیں۔عرب نیوز پاکستان کی سالانہ کانفرنس 2022 سے خطاب کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ خیبر پختونخوا (کے پی) میں صورتحال قابو میں ہے اور کسی بھی ناخوشگوار صورتحال کی صورت میں نمٹا جائے گا۔ صوبائی حکومت نوٹس لے جبکہ دہشت گردی کیخلاف کارروائی کے لیے وفاقی حکومت ہر صورت ساتھ دے گی۔اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ سوات اور شمالی علاقہ جات کی صورتحال 2009 اور 2011 والی سطح پر آ گئی ہے تاہم ابھی تک علاقے میں فوجی آپریشن کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا، سوات میں عوام کو اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر آتے دیکھنا بہت خوش آئند ہے۔ یقین ہے حالات پر قابو پالیا جائے گا۔ تاہم دہشت گردوں کا تعلق افغانستان سے ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی کامیابی بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ پاکستان افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے غافل نہیں رہ سکتا۔ اسلام آباد میں میں امن کا دارومدار کابل میں امن پر ہے۔ ہم معاملے کو حل کرنے کے لیے پُرامن طریقے استعمال کریں گے اور اگر ملک کو دہشت گردی کی لعنت سے پاک کرنا ناگزیر ہوا تو ہم طاقت کا استعمال کریں گے۔خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان کی دفاعی افواج پوری طرح سے تیار ہے ، پچھلی تین دہائیوں سے فرنٹ لائن فورسز انتہا پسندی کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ ہمارے تجربات اور قربانیاں بے مثال ہیں۔قومی سلامتی میں میڈیا کے کردار پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں قومی سلامتی کے لیے میڈیا کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں مملکت سعودی عرب میں بہت بنیادی تبدیلیاں آئی ہیں اور میڈیا بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔ روایتی طرز حکمرانی سے جدید دور کے طریقوں کی طرف روانگی میں کوئی بھی تبدیلی ایک پیراڈائم شفٹ کی طرح ہے جو مملکت میں واقع ہوئی ہے۔وزیر دفاع نے اس بات پر زور دیا کہ سیاست دانوں کی طرف سے میڈیا کے استعمال خاص طور پر سوشل میڈیا جس کا غلط استعمال کیا گیا اسے موجودہ حالات میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ جعلی خبروں کے ذریعے جنگوں، پالیسیوں اور حکمت عملیوں کے ساتھ تباہی مچا رہا ہے۔ میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں میڈیا کا مقام بالکل بنیادی ہے۔ یہ قومی زندگی کا سب سے اہم حصہ بن گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مسلح افواج میں کمان کی تبدیلی بہت اہمیت کا معاملہ ہے جس کا احترام کیا جانا چاہیے۔ میں نے اپنے وزیر دفاع کی حیثیت سے دو آرمی چیفس کی تقرریوں کا عمل منعقد کیا تھا اور اس معاملے پر اس طرح کی بحث کبھی نہیں ہوئی تھی۔ مجھے بہت زیادہ امید ہے تمام ادارے آئین کے مطابق اپنا کردار ادا کریں گے۔ ہم امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ ہمارے وزیر خارجہ، وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف کے دورے اچھے اور نتیجہ خیز رہے۔پاک فوج کے کردار کے حوالے سے وزیردفاع نے کہا کہ نیوٹریلٹی ایسی چیز ہے جس کو دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اگر افواج پاکستان آئین کے مطابق چلنا چاہتی ہیں تو خوش آئند بات ہے۔ ہمیں خوش ہونا چاہیے اور قانون کی پیروی کرنی چاہیے۔ خواجہ آصف نے مزید کہا کہ مملکت کے ساتھ ملک کے تعلقات کئی دہائیوں پرانے ہیں اور یہ بہت اہم ہیں اور ہماری خارجہ پالیسی میں ان کا کلیدی کردار ہے۔ بادشاہت نے انتہائی نازک وقت میں ہماری مدد کی ہے۔ مزید برآں ولی عہد کے دورہ پاکستان سے دوطرفہ تعلقات مزید مستحکم ہوں گے کیونکہ اس سے دفاع اور سرمایہ کاری کے شعبے میں بہتری میں مدد ملے گی۔ ہمیں اپنی معیشت کی بحالی کے لیے پاکستان میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ لہذا، یہ ایک بہت اہم دورہ ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی تعلقات کی بحالی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ انہیں مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے دوسرے حصوں میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم پر شدید تشویش ہے اور بھارتی حکومت گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کے قاتل کو معاف کر رہی ہے۔انہوں نے اسرائیل کے فلسطین پر مظالم کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا کوئی سرکاری وفد اسرائیل نہیں گیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کچھ پاکستانی صحافی اسرائیل کے دورے پر گئے ہیں کیا وہ پاکستان کے لیے خطرے کی علامت ہے؟ تو خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ وہ اسے خطرہ تو نہیں سمجھتے لیکن پاکستان کی اسرائیل کے حوالے سے پالیسی سے انحراف ہے۔
تبصرے بند ہیں.