صدر مملکت ڈ اکٹر عارف علوی نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی غیر ملکی سازش پر کہا ہے کہ اس بات پرقائل نہیں کہ کوئی سازش ہوئی ہے۔ لیکن تحقیقات ہونی چاہئیں، سفارتی سائفر تحقیقات کے لیے چیف جسٹس کو بھیجا تھا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے نجی ٹی وی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔صدر مملکت نے کہا ہے کہ اس بات پر قائل نہیں ہوں کہ عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کیلئے کوئی غیرملکی سازش کی گئی تھی، تاہم اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔انٹرویو کے دوران عارف علوی نے نئے آرمی چیف کی تقرری پر وسیع تر مشاورت پر بھی زور دیتے ہوئے کہا کہ بطور صدر غیرجانبدار ہوں اور تحریک انصاف سے تعلق ان کا ماضی ہے۔ پارٹی میرا ماضی ہے۔ بڑا اچھا ماضی ہے۔حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مشاورت پر انہوں نے کہا کہ صدر کوشش کر سکتا ہے کہ پاکستان کے اندر یہ دوریاں پیدا نہ ہوں۔ اس وقت ملک کے بہت مسائل ہیں، کوئی ایک maverick (غیرمعمولی شخص) یہ مسائل حل نہیں کرسکتا۔عمران خان اور حکومت دونوں جانب سے مذاکرات سے انکار پر عارف علوی نے کہا کہ عمران خان اپنی حکومت ہٹائے جانے اور بالخصوس جس انداز میں حکومت ہٹائی گئی اس پر سخت مایوس ہوئے اور انہوں نے مایوسی میں فیصلہ کیا کہ اسمبلی میں نہیں بیٹھیں گے۔میزبان کی طرف سے سوال پوچھا گیا کہ کیا عمران خان کا اسمبلی سے استعفوں کا فیصلہ درست فیصلہ تھا؟ اس پر جواب دیتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ مجھ سے مشورہ ہوتا تو میں مختلف مشورہ دے سکتا تھا۔عمران خان کے ممکنہ لانگ مارچ اور فوج کے کردار سے متعلق سوال پر صدر نے کہا کہ فوج کا ایک آئینی کردار ہے، میں نہیں سمجھتا کہ فوج کوئی غیر آئینی کردار ادا کرے۔صدر حالیہ دنوں امریکا اور پاکستان میں تعلقات بہتر کرنے کی بات کر چکے ہیں جو سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے امریکی سازش کے الزامات کے بعد خراب ہوئے۔عارف علوی نے کہا کہ انہوں نے سفارتی سائفر تحقیقات کے لیے چیف جسٹس کو بھیجا تھا۔ میں اس بات پرقائل ہوں اس پر تحقیقات ہونے چاہیئں۔ میں قائل نہیں سازش ہوئی مگر میرے شبہات ہیں تحقیق ہو۔ میں نے یہ بھی کہا سموکنگ گن (ثبوت) نہیں ملے گی آپ کو۔ ان چیزوں میں نہیں ملتی۔صدر علوی نے لیاقت علی خان کے قتل، بھٹو کی اقتدار سے معزولی اور ضیا الحق کے طیارے کی تباہی سمیت کئی واقعات کا حوالہ دیا اور کہا ان معاملات میں کسی کو کچھ نہیں ملا۔ انہوں نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ واقعات شواہد کو بھی مد نظر رکھے۔صدر مملکت نے کہا کہ آرمی چیف کے تقرر میں آئینی طریقہ کار پر عمل ہونا چاہیے۔ مشاورت کی تجویز دی ہے، مشاورت ہونی چاہئے لیکن ان کی خواہش ہے ان کے پاس سمری مشاورت کے بعد آئے۔ اخبار میں پڑھا لندن میں مشاورت ہو رہی ہے۔عمران خان کے ساتھ مشاورت کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ چاہتا ہوں وسیع تر مشاورت ہونی چاہیے۔ ماضی میں آرمی چیف کے تقرر پر اپوزیشن سے مشاورت ہوتی رہی ہے اور موجودہ آرمی چیف جنرل باجوہ کو توسیع دیتے وقت بھی اپوزیشن سے مشاورت ہوئی تھی جس کے بعد پارلیمنٹ میں بل منظور کیا گیا۔
تبصرے بند ہیں.