سندھ میں ایک طرف تو اقربا پروری، کرپشن اور بدعنوانیوں کے بازار گرم ہیں لیکن دوسری طرف میرٹ پر بھرتیوں کے لیے معیار اس قدر نا پائیدار ہوگیا ہے کہ کراچی پولیس کو امیدوار ہی نہیں مل رہے اور ٹریفک پولیس، ڈرائیور اور اقلیتوں کے لیے اسامیوں کو دوبارہ مشتہر کیا جائے گا۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس ٹریفک احمد نواز چیمہ کے مطابق سندھ کی مختلف پولیس رینج سے لگ بھگ 3 ہزار پولیس اہلکار گزشتہ 5 سال سے کراچی ٹریفک پولیس میں عارضی طور پر خدمات سرانجام دے رہے تھے جن کی مدت پوری ہونے پر اب انہیں بھرتی کے ڈسٹرکٹس میں مرحلہ وار واپس بھیجا جا رہا ہے۔
کراچی ٹریفک پولیس میں اہلکاروں کی کمی پوری کرنے کے لیے فوری طور پر 2838 آسامیاں دستیاب ہیں جن پر بھرتی کا عمل جاری ہے۔
ڈی آئی جی ٹریفک کے مطابق ان مشتہر آسامیوں پر بھرتی کے لیے 19 ہزار سے زائد درخواستیں موصول ہوئیں۔ دوڑ، فٹنس اور تحریری امتحان کے ابتدائی مراحل میں لگ بھگ 13 ہزار امیدوار ناکام اور 5800 امیدوار دستیاب ہوئے۔
دستاویزات کی چھان بین کے دوران 3800 امیدوار مزید شارٹ لسٹ ہوگئے جب کہ انٹرویوز کا مرحلہ شروع ہونے پر امید واروں کی تعداد اور کم ہوجائے گی۔
اسی طرح کراچی پولیس میں ڈرائیورز کی 1777 نشستوں پر بھرتی کے لیے بھی ناکامی ہوئی ہے، ایل ٹی وی لائسنس رکھنے والے ڈرائیور مانگے گئے تھے، تمام مراحل طے کر کے صرف 62 پاس ہوئے۔
پولیس ڈرائیورز کی 1715 پوسٹوں کے لیے کوشش کے باوجود امیدوار نہیں مل سکے۔
پولیس ذرائع کے مطابق کراچی پولیس کی حالیہ بھرتیوں میں اقلیتوں کے لیے 1284 نشستیں مختص کی گئیں، شفاف بھرتیوں کا عمل شروع کیا گیا تو اقلیتوں سے امیدوار ہی دستیاب نہیں ہیں۔
کراچی پولیس میں اقلیتی نشستوں کی 1284 مشتہر اسامیوں پر صرف 46 امیدوار دستیاب ہوئے۔
ڈی آئی جی ٹریفک احمد نواز چیمہ نے بتایا کہ بھرتی کے مرحلے کے دوران شہری اور دیہی سندھ کے امیدواروں کی فٹنس کی راہ میں دو اہم مسائل درپیش ہیں۔
دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والا امیدوار دوڑ اور فٹنس کے مراحل عبور کر جاتا ہے لیکن وہ تحریری امتحان میں فیل ہو جاتا ہے۔
اسی طرح شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والا امیدوار امتحان پاس کر لیتا ہے لیکن فٹنس کا ٹارگٹ پورا نہیں کر پاتا۔
تبصرے بند ہیں.