کراچی کے ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔کراچی میں ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔انہوں نے کہا کہ میں نے دن دیکھا نہ رات، بس کام کیا، تمام بڑی شاہراہوں کو ہم نے بنوایا، جس بلدیہ عظمیٰ کے لیے کہا کہ اختیارات نہیں، اسی نے کام کیا۔مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ میرے لیے آسان تھا کہ وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلیٰ سے پیسوں کا تقاضہ کرتا، میرا ایمان ہے کہ قانون کے مطابق چلنا ہی حل ہے۔انہوں نے کہا کہ ہر چیز کا حل آئین اور قانون میں موجود ہے، قانون میں ہے کہ ٹیکس لگانے کا حق بلدیہ عظمیٰ کے پاس ہے۔مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ سڑکوں پر پانی ہوتا ہے تو آپ وسیم اختر، یا حافظ نعیم الرحمٰن سے نہیں پوچھتے، آپ مجھ سے، حکومت سے اور بلدیہ عظمیٰ کراچی سے پوچھتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ وسیم اختر کے اپنے کاغذات میں 20 فیصد ریکوری تھی، وہ پیسہ کہاں جاتا تھا؟ وسیم اختر نے یہ ٹیکس جمع کرنے کا ٹھیکہ ایک پرائیویٹ کمپنی کو دیا تھا۔مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ 20 کروڑ روپے ٹیکس جمع ہوتا تھا جس میں سے 4 کروڑ روپے اس کمپنی کو دیا گیا، میں نے غلطی یہ کی کہ جیب سے محبت نہیں کی، بلکہ کے ایم سی سے کی۔انہوں نے کہا کہ ہم نے سوچا کہ اس کمپنی میں خورد برد کے امکانات زیادہ ہیں، بڑی مشکل سے میں نے کے الیکٹرک کو قائل کیا مگر کچھ لوگوں کو یہ پسند نہیں آیا۔مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ وسیم اختر 2 سو سے 5 ہزار روپے ٹیکس جمع کرتے تھے، میں نے پیسے کم کیے اور آمدنی بڑھائی، مگر کچھ لوگ یہ نہیں چاہتے۔
تبصرے بند ہیں.