سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا جس میں سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ڈالر کنٹرول میں نہیں ہے، ہمارے زمانے میں فری لانسر نے 3 ارب ڈالرز باہر رکھے ہوئے تھے، وزیرخزانہ نےکہا تھا کہ آئی ایم ایف کا پیسہ آنے سے روپیہ مستحکم ہوگا، سپر سائیکل کم ہوا ہے، آئل کی قیمت بھی کم ہوئی ہے، اس کے علاوہ برآمدات میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔
سابق وزیر خزانہ نے سوال کیا کہ کچھ ممالک نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ آئی ایم ایف کے بعد پیسے دیں گے، جن ممالک نے وعدہ کیا تھا ان کی کیا اپ ڈیٹ ہے؟
اس پر وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کہا ہم جب آئے تو آئی ایم ایف پروگرام معطل تھا، اقدامات کے بعد آئی ایم ایف پروگرام بحال ہوا، پروگرام سے قبل ہی مارکیٹ اپنے آپ کو ایڈجسٹ کر رہی تھی اور اس لیے ڈالر زیادہ کم نہیں ہوا، اس وقت ڈالر میں مسلسل اضافہ سیلاب کی وجہ سے بھی ہو رہا ہے، سیلاب سے پہلے یوکرین کے مسئلے کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔
انہوں نے کہا یوکرین سے بڑی بڑی معیشتیں ہل گئیں، ہم تو پہلے ہی نازک صورتحال میں تھے، یوکرین معاملے میں ہم نے تو ہلنا ہی تھا، ہم اس وقت پریشان کن حالات میں ہیں، ہر کسی کو صبر کرنا ہو گا۔
عائشہ غوث پاشا کا کہنا تھا کہ اے ڈی بی سے 1.5 بلین ڈالر کی بات ہو رہی ہے، مختلف ذرائع سے 7 بلین ڈالر کے معاملات پر بات چیت چل رہی ہے، قطر اور یو اے ای کی پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے بات چیت ہو رہی ہے، توقع ہے بحالی اور تعمیر نو کے لیے بیرون ملک سے کچھ مثبت ہوگا۔
کمیٹی مبران نے کہا کہ آئی ایم ایف آچکا مگر ڈالر اوپر جا رہا ہے جبکہ شوکت ترین نے مزید کہا کہ اسٹیٹ بینک نے بینکوں کےخلاف جو نوٹس لیا ہے، اس پر کارروائی کرنے دیں، امید ہے اسٹیٹ بینک بہتر انکوائری کرے گا۔
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا ان بینکوں کی چھان بین کے بعد دوسرے بینکوں کی بھی چھان بین ہوگی، لگتا ہے بینکوں نے رسک پرائس کو مد نظر رکھ کر ایل سی میں اوورچارج کیا۔
حکام نجی بینک نے کمیٹی کو بتایا کہ انٹر بینک اور مارکیٹ میں ڈالر کا بہت فرق ہے، ڈالر کی اسمگلنگ کو روکیں، تمام بینکوں کے لیے بہت مشکل وقت جا رہا ہے، ڈالر مزید اوپر جا سکتا ہے اور مارکیٹ میں غیریقینی صورتحال کےباعث بینک تھوڑا اوورچارجز کر رہے ہیں، پاکستان میں ڈالر کی کمی ہے، لیکج کوروکیں، درآمدات کو کم کریں، زر مبادلہ بڑھائیں، سخت وقت گزر چکا ہے اب صورتحال بہتری کی جانب گامزن ہے۔
تبصرے بند ہیں.