تقریب کے وقار کے تحفظ کی خاطر ہم دونوں چیف جسٹس کے خطاب کے دوران خاموش رہے ہیں لیکن ہماری خاموشی کو غلط مفہوم پہناتے ہوئے ہماری رضامندی سے تعبیر نہ کیاجائے ۔
دونوں فاضل ججوں کی جانب سے جمعرات کے روز جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین / چیف جسٹس ،عمر عطاء بندیال،اراکین جسٹس اعجاز الاحسن ،جسٹس سیدمنصور علی شاہ ، جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی ،وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ ،اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی اور پاکستان بار کونسل کے نمائندہ /سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ممبراختر حسین ایڈووکیٹ کے نام لکھے گئے دو صفحات پر مشتمل خط میں کہاگیاہے کہ ہم نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ غیر ضروری تنازعات سے گریز کریں ،اور قوم کے سامنے سپریم کورٹ کو ایک وحدت کی صورت میں پیش کریں۔
تاہم 12ستمبر 2022 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے نئے عدالتی سال کی افتتاحی تقریب کے موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس عمر عطا بندیال کے خطاب نے ہمیں ششدر اورنہایت مایوس کردیاہے ، اس تقریب کا مقصد (جیسا کہ چیف جسٹس نے بھی بیان کیا) یہ تھا کہ کہ ہم اپنی ترجیحات کا تعین کریں اور اور اگلے عدالتی سال کے لیے تصور واضع کریں لیکن چیف جسٹس نے اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کہا ہے ۔
انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کا دفاع کیا اور اس کے فیصلوں پر کی جانے والی تنقید کا جواب دیا، سپریم کورٹ کی جانب سے سے یکطرفہ طور پر بات کی ہے حالانکہ سپریم کورٹ تنہا چیف جسٹس پر مشتمل نہیں ہے ،بلکہ اس میں سپریم کورٹ کے تمام جج شامل ہیں،فاضل ججوں نے خط میں کہا ہے کہ چیف جسٹس نے زیر سماعت مقدمات پر تبصرہ کیا ،جو کہ نہایت پریشان کن تھا۔
انہوں نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور اس کے موجودہ اور متعدد سابق عہدیداروں کے بارے میں غیر ضروری اور اہانت آمیز باتیں کیں اور ان پر سیاسی پارٹی بازی کا الزام لگایاہے ، کیونکہ ان کی جانب سے مذکورہ مقدمہ میں فل کورٹ بینچ کی تشکیل کی درخواست دائر کی گئی تھی چونکہ سپریم کورٹ نے ان کی درخواست مسترد کر دی تھی، توچیف جسٹس ان کی اہانت اور ان کی طرف محرکات کی نسبت بات نہیں کر سکتے تھے،عدالت نے جو کچھ کیا یا اسے جواب دینے کے لیے چیف جسٹس نے مزید کہا،اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ اس درخواست کے لیے کوئی قانونی بنیاد نہیں تھی ۔
فاضل ججوں نے لکھا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین سپریم کورٹ سے تقاضہ کرتا ہے کہ وہ فیصلے دے لیکن جو امر سب سے زیادہ نامناسب اور غیر معقول تھا وہ پاکستان کے کام اور فیصلوں کا ذکر کرنا تھا،آئین کے تحت جوڈیشل کمیشن ایک الگ اور خو دمختار ادارہ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن نے اپنے چیئرمین کی جانب سے سے تجویز کیے گئے امیدواروں کی منظوری نہیں دی اور انہوں نے وفاقی حکومت کے نمائندو ں وفاقی وزیر قانون اور اٹارنی جنرل پر الزام رکھا اور ناراضگی کا اظہار کیا ،کسی بھی صورت میں جوڈیشل کمیشن کے چیئرمین کو یہ نہیں کہنا چاہیے تھا ؟جو کہا گیا ۔
چیف جسٹس کمیشن کے چیئرمین ہیں اس لیے اس کے فیصلوں کی تعمیل کی ذمہ داری دوسروں سے زیادہ ان پر آتی ہے ، انہوں نے لکھا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے تمام اراکین بشمول چیئرمین برابر ہیں ،اور چیف جسٹس کی ذمہ داری صرف اس کے اجلاس کی سربراہی کرنا ہے۔
کمیشن نے 28جولائی کو چیف جسٹس کے نامزد پانچ امیدواروں کی نامزدگی کی منظوری نہیں دی تھی ،یہ چیف جسٹس کو زیب نہیں دیتا کہ وہ کمیشن کے ارکان پر حملہ کریں وہ بھی عوام کے سامنے اور صرف اس وجہ سے کہ انہوں نے ان کے امیدواروں کی تائید نہیں کی۔
فاضل ججوں نے لکھاہے کہ چیف جسٹس نے خود کہاہے کہ آئینی اداروں کو کسی صورت بھی مجروح،ان کے احکامات کی خلاف ورزی اور ان پر حملہ نہیں کرنا چاہیے ،لیکن چیف جسٹس نے کمیشن کے اکثریتی فیصلے کو تسلیم نہ کرکے خود ہی خلاف ورزی کردی ہے،انہوں نے مزید لکھاہے کہ چیف جسٹس نے جو کہا ہے وہ ریکارڈ کے بھی خلاف تھا،جیسا کہ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے( بغیر اجازت) جاری کیے گئے آڈیو سے بھی معلوم ہوتا ہے۔
فاضل ججوں نے واضح کیا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے چار اراکین نے چیف جسٹس کے نامزد امیدواروں کی حمایت نہیں کی تھی،اس لیے اجلاس کو پہلے سے طے شدہ کہنا اور ملتوی کئے جانے کا تاثر دینا بھی غلط ہے،جب جوڈیشل کمیشن کے چیئرمین اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوئے تو اجلاس درمیان میں ہی چھوڑ کر چلے گئے،آئین لازم کرتا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے کل اراکین کی اکثریت سے اعلیٰ عدلیہ میں نئے جج مقررکیے جائیں۔
فاضل ججوں نے لکھا ہے کہ ایک تہائی سے زیادہ سپریم کورٹ خالی پڑی ہے، اسے معذور نہیں چھوڑا جا سکتا ہے ،انہوں نے واضح کیا ہے کہ تقریب کے وقار کے تحفظ کی خاطر ہم دونوں چیف جسٹس کے خطاب کے دوران خاموش رہے ہیں لیکن ہماری خاموشی کو غلط مفہوم پہناتے ہوئے ہماری رضامندی سے تعبیر نہ کیاجائے۔
تبصرے بند ہیں.