منگولیا: فضائی آلودگی کے ہولناک نقصانات آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں اور اب معلوم ہوا ہے کہ گھر کے اندر اور اطراف میں موجود آلودہ ہوا بالخصوص بچوں کی نشوونما متاثر کرسکتی ہے۔ اس فضا کو صاف بناکر دماغی نشوونما پر منفی اثرات کم کیے جا سکتے ہیں۔سائمن فریزر یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے منگولیا کے سائنسدانوں کے اشتراک سے حمل کے دوران خواتین کے گھروں میں ایئرفلٹر لگانے اور زچہ و بچہ پر اس کے اثرات کا جائزہ لینے کے کئی تجربات کئے ہیں۔ اس طرح نومولود بچوں پر فضائی آلودگی کے منفی اثرات کا یہ پہلا تجربہ بھی ہے۔2014 میں شروع ہونے والے ٹیسٹ میں اولان باتارشہر، منگولیا کی کل 540 حاملہ خواتین بھرتی کی گئیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اولان باتار دنیا کے آلودہ ترین مقامات میں سے ایک ہے۔مطالعے میں شامل تمام خواتین تمباکو نوشی سے پاک اور 18 ہفتے سے کم حاملہ تھیں اور ان کے گھروں میں کبھی بھی ایئرفلٹر نہیں لگایا گیا تھا۔ انہیں اٹکل (رینڈملی) فلٹر اور بغیر فلٹر والے گروہ میں شامل کیا گیا۔ خواتین کے ایک گروہ کو ایک یا دو معیاری فلٹر دیے گئے اور ترغیب دی گئی کہ وہ بچے کی پیدائش تک انہیں استعمال کریں اور ولادت کے بعد فلٹر ہٹا دیے گئے۔اس کے بعد تمام پیدا ہونے والے بچوں کو چار سال تک ذہانت کے ایک ٹیسٹ سے گزارا گیا۔ جسے ’فل اسکیل آئی کیو (ایف ایس آئی کیو)‘ کہا جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ بغیر فلٹر مدتِ حمل سے گزرنے والے بچوں کے مقابلے میں فلٹر میں فروغ پانے والے بچوں کا ایف ایس آئی کیو2.8 پوائںٹ زیادہ تھا۔اس نتائج کو ماضی کی دیگر تحقیقات کے ساتھ ملایا جائے تو صاف ہوا اور ماحول کے دماغی فوائد مزید سامنے آتے ہیں۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ فضائی آلودگی اور گندی ہوا میں کمی سے واضح فوائد حاصل ہوسکتے ہیں اور اس سے نسلوں کا بھلا ہوسکتا ہے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ فلٹر کے ماحول میں شکمِ مادر میں پروان چڑھنے والے بچوں میں الفاظ کو سمجھنے کا رحجان بھی بڑھا ہوا تھا جسے وربل کمپری ہینشن انڈیکس اسکور کہتے ہیں۔پاکستان کے گنجان آباد شہروں سمیت دنیا بھر کی 90 فیصد آبادی غیرمحفوظ اور آلودہ فضا میں سانس لینے پر مجبور ہے۔ اس سے ایک جانب دل، پھیپھڑے اور دیگر اعضا کے امراض پیدا ہورہے ہیں تو دوسری جانب دماغی نشوونما بھی متاثر ہو رہی ہے۔
تبصرے بند ہیں.