ریاست جبری گمشدگیوں میں شامل ہے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ

اسلام آباد: چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہرمن اللہ کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ ریاست جبری گمشدگیوں میں شامل ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ ریاست جبری گمشدگیوں میں شامل ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسارکیا کہ آج بھی لوگ اٹھائے جا رہے ہیں۔ وفاقی حکومت نے کیا اقدامات اٹھائے اورکون ذمہ دار ہے۔ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سات وزرا پرمشتمل وفاقی کابینہ نے مسنگ پرسنز سے متعلق ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو مسنگ پرسنز کیسز سے متعلق اپنی سفارشات پیش کرے گی۔ اس پرچیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت کو کمیٹیوں میں نہ ڈالیں۔ آئین کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسارکیا کہ کیا حکومت نے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف سمیت سابق چیف ایگزیکٹوز کونوٹس جاری کئے۔ نوٹسسز اوران چیف ایگزیکٹوز کے بیان حلفی کہاں ہیں؟ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹارنی جنرل بیرون ملک ہیں کچھ وقت دیا جائے وہ اس پردلائل دیں گے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ یہ سب سے سیریس کیس ہے اورریاست کا یہ کنڈکٹ ہے۔آج وفاقی حکومت نے ثابت کیا ہے کہ اتنے بڑے ایشو کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ حکومت کو ان کیسسز کو سب سے پہلے دیکھنا چاہیئے۔ یہ اچھا لگے گا کہ ہم چیف ایگزیکٹو کو طلب کریں۔آپ یہ ثابت کررہے ہیں کہ جنرل مشرف کے دور سے لیکر اب تک لوگوں کو اٹھانا ریاستی پالیسی ہے۔چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ جس دور میں کوئی لاپتہ ہوا اس کا کوئی تو ذمہ دار ہے۔ آج بھی شکایات مل رہی ہیں کہ لوگوں کو اٹھایا جا رہا ہے۔ عدالتی حکم پر عمل درآمد نا کرنے کی وجہ سے بادی النظر میں حکومت نا کام رہی۔عدالت نے وزارت داخلہ کو 25 مئی کے حکم پرعملدرآمد یقینی بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں مزید کوئی التوا نہیں دیا جائے گا فریقین آئندہ سماعت تک دلائل دیں۔ کیس کی سماعت تین جولائی تک ملتوی کردی گئی۔

تبصرے بند ہیں.