لاہور (نیوز ڈیسک) تاریخ کا سب سے بڑے فراڈ کے جرم میں 150 برس کی قید کی سزا پانے والے امریکی شہری برنارڈ میڈاف جیل میںقید کے دوران انتقال کرگئے.
بیورو آف پرزنز کے مطابق برنارڈ میڈاف کا انتقال آج (14 اپریل کو) ہوا، ان کی عمر 82 برس تھی۔
برطانوی خبررساں ادارے ‘رائٹرز’ کی رپورٹ کے مطابق برنارڈ میڈاف کے گردے ناکارہ ہوچکے تھے اور وہ دیگر بیماریوں میں بھی مبتلا تھے۔
وہ جون 2009 میں 64 ارب 80 کروڑ ڈالر (99 کھرب پاکستانی روپے) کے فراڈ کے جرم میں 150 برس قید کی سزا سنائے جانے کے بعد نارتھ کیرولینا کے شہر بٹنر میں وفاقی جیل میں قید تھے۔
برنارڈ میڈاف کے فراڈ سے متاثر ہونے والے ہزاروں افراد میں بڑے اور چھوٹے پیمانے پر کئی افراد، خیراتی ادارے، پنشن فنڈز اور ہیج فنڈز شامل ہیں۔
انہوں نے جن افراد کو دھوکا دیا تھا ان میں اداکار کیون بیکون، کائرہ سیگوک اور جان مالکووچ شامل تھے، ان کے علاوہ بیس بال ہال آف فیم کے حامل سینڈی کوفاکس اور ہدایت کار اسٹیون اسپیل برگ سے وابستہ ایک چیریٹی بھی شامل تھی۔
نیویارک میٹس کے مالکان، جو برنارڈ میڈاف کے طویل المدتی کلائنٹس میں شامل تھے، انہوں نے فراڈ کے نتیجے میں ہونے والے خسارے کے سسب ایک اچھی بیس بال ٹیم کے لیے سالوں جدوجہد کی۔
نوبیل امن انعام کے فاتح ایلی ویزل جن کی فاؤنڈیشن کو ایک کروڑ 52 لاکھ ڈالر کا خسارہ ہوا تھا، انہوں نے 2009 میں کہا تھا کہ ‘ہم نے تو انہیں جیسے خدا سمجھ لیا تھا، ہم ان کے ہاتھ میں موجود ہر چیز پر اعتبار کرتے تھے’۔
تاہم کچھ لوگوں نے اپنا سب کچھ کھودیا تھا، ان میں سے کئی متاثرین کا تعلق یہودی برادری سے جہاں برنارڈ میڈاف ایک مخیر شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔
ان کے جرائم کا انکشاف 2008میں حکام کو ان کے 2 بیٹوں کیا تھا جو اس اسکیم کا حصہ نہیں تھے۔
اس فراڈ نے امریکی کی سیکیوریٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی) میں خامیوں کو بھی بے نقاب کیا تھا، جنہوں نے ان کے فراڈ کو نظرانداز کیا یا وہ پتا لگانے میں ناکام ہوئے تھے۔
اے بی سی نیوز کے مطابق قید کے دوران انٹرویو میں برنارڈ میڈاف نے اپنے وکلا کو بتایا تھا کہ ‘کئی مرتبہ میری ایس ای سی سے ملاقات ہوئی اور مجھے لگا کہ وہ مجھ تک پہنچ گئے’۔
برنارڈ میڈاف، نصدق پر سب سے زیادہ پیسہ بنانے والوں میں سے تھے اور ایک مرتبہ وہ اس کے نان ایگزیکٹو چیئرمین بھی بنے تھے۔
ان کی برکریج فرم مڈٹاؤن مین ہٹن ٹاؤر میں واقع تھی جو لپسٹک بلڈن کے نام سے جانا تھا۔
ان کے ملازمین نے کہا کہ وہ خود کو برنارڈ میڈاف کے اہلخانہ کا حصہ سمجھتے تھے اور وہ دوسرے فلور پرجاری فراڈ سے ناواقف تھے صرف ان کے اعتبار کےچند لوگوں کو ہی اس فراڈ کا علم تھا۔
برنارڈ میڈاف نے کہا تھا کہ انہوں نے یہ فراڈ 1990 میں شروع کیا تھا لیکن پراسیکیوٹر اور کئی متاثرین کا کہنا تھا کہ یہ اس سے پہلے شروع ہوا تھا۔
سرمایہ کاروں کو تیزی سے، دگنی سالانہ آمدن کا لالچ دیا گیا تھا جو دیگر کے لیے کرنا ممکن نہیں تھا۔
فراڈ سے حاصل ہونے والی رقم سے برنارڈ میڈاف اور ان کی اہلیہ نے بہت سی آسائشیں حاصل کیں جن میں مین ہٹن پینٹ ہاؤس، فرنچ ولا، مہنگی گاڑیاں اور 82 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی مشترکہ دولت شامل تھی۔
تاہم جب امریکا کے ڈسٹرکٹ جج ڈینی چن نے انہیں سزا سنائی تو کمرہ عدالت میں ان کے قریبی افراد میں سے کوئی بھی موجود نہیں تھا اور ان کی سزا میں نرمی کے لیے ان کے اہلخانہ، دوستوں یا حامیوں کی جانب س ان کے اچھے کاموں کے حوالوں پر مبنی کوئی خط بھی جمع نہیں کرایا گیا تھا۔
برنارڈ میڈاف نے عدالت میں بتایا تھا کہ ‘جب میں نے یہ مسئلہ، یہ جرم شروع کیا میرا خیال تھا کہ میں اس چیز سے نکل آؤں گا لیکن یہ ناممکن ہوگیا، میں نے جتنی زیادہ کوشش کی، میں نے خود کو اتنے گہرے گڑھے میں دھکیلا’۔
برنارڈ میڈاف نے کمرہ عدالت میں موجود متاثرین سے خطاب بھی کیا تھا، انہوں نے کہا تھا کہ ‘مجھے معاف کردیں، میں جانتا ہوں اس سے آپ کی مدد نہیں ہوگی’۔
برنارڈ میڈاف نے کب، کیسے فراڈ کیا؟
برنارڈ لارنس میڈاف 29 اپریل، 1938 کو نیویارک میں پیدا ہوئے تھے اور انہوں نے یورپی امیگرنٹس کے گھر پرورش پائی جو اپنے گھر کے باہر ایک بروکریج فرم چلاتے تھے۔
انہوں نے 1960 میں ہوفسٹرا یونیورسٹی سے گریجویٹ کیا اور اس کے مختصر عرصے بعد وہ بروکلین لا اسکول چلے گئے تھے۔
برنارڈ میڈاف نے 2011 میں نیویارک میگزین کو بتایا تھا کہ اسی سال انہوں نے اپنی جمع پونجی کے 500 ڈالر کا استعمال کرکے برنارڈ ایل میڈاف انویسٹمنٹ سیکیوریٹیز شروع کی تھی اور دفتر کی جگہ اپنے سسر سے ادھار پر لی تھی۔
انہوں نے چھوٹے، پینی اسٹاکس کی فروخت مارکیٹ میں شروع کی تھی اور 1970 کی دہائی کے اوائل میں وہ نصدق ٹریڈنگ سسٹم کے 5 اوریجنل بروکر ڈیلرز میں شامل ہوگئے تھے۔
برنارڈ میڈاف نے مارکیٹ میں زیادہ سے زیادہ مسابقت کی حمایت کی وہ بھی اس وقت جب نیویارک اسٹاک ایکسچینج کو تجارت پر غلبہ حاصل تھا اور وہ الیکٹرانک ٹریڈنگ میں بھی آگے بڑھے تھے۔
وہ بہت صفائی پسند تھے، ان کے دفاتر سیاہ اور سرمئی رنگ کی چیزوں سے سجے تھے، ملازمین کی ڈیسکس پر چھوٹا موٹا پیپر ورک موجود ہوتا تھا اور انہوں نے اپنی گھڑیوں کے ساتھ ویڈنگ رنگز بھی میچ کی تھی۔
انہوں نے 1980اور 1990 کی دہائیوں میں بہت اچھا کام کیا تھا اور ان کا منافع بھی زیادہ تھا تاہم مارکیٹ کے معیار تبدیل ہونے پر ان کے منافع میں کمی واقع ہوئی لیکن برنار کے بروکریج آپریشن نے ان کی دھوکا دہی کے لیے مالی مدد فراہم کی تھی۔
کلائنٹس کو بتایا گیا تھا وہ ‘اسپلٹ-اسٹرائیک کنورشن اسٹریٹیجی’ کے ذریعے پیسے بنائیں گے جس میں وہ اسٹینڈرڈ اینڈ پور 100 انڈیکس پر زیادہ اسٹاکس خریدیں گے اور انڈیکس پر خرید و فروخت کے ذریعے خطرات میں کمی لائیں گے۔
برنارڈ میڈاف کامیاب اور صارفین خوش نظر آتے تھے لیکن کچھ بھی حقیقی نہیں تھا۔
تبصرے بند ہیں.