انگلینڈ، ایسٹرازینیکا کے استعمال سے سات لوگوں کی جان چلی گئی

لاہور (نیوز ڈیسک) آکسفورڈ یونیورسٹی اور ایسٹرازینیکا کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین حالیہ ہفتوں کے دوران دنیا بھر میں توجہ کا مرکز بنی رہی ہے جس کی وجہ مختلف ممالک میں اس کی خوراکیں استعمال کرنے والے افراد میں خون گاڑھا ہونے یا بلڈکلاٹس کے کیسز سامنے آنا ہے۔

اب برطانیہ میں ایسٹرا زینیکا ویکسین استعمال کرنے والے 7 افراد کی ہلاکت کی رپورٹ سامنے آئی ہے۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق میڈیسین ریگولیٹر نے ان ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔

تاہم یہ ابھی واضح نہیں کہ بلڈکلاٹس کے کیسز اتفاق ہیں یا اس ویکسین کے استعمال کا کوئی مضر اثر۔

برطانیہ کی میڈیسین اینڈ ہیلتھ کیئر پراڈکٹس ریگولیٹری ایجنسی (ایم ایچ آر اے) کے مطابق ویکسین کے فوائد خطرات سے زیادہ ہیں۔

عالمی ادارہ صحت اور یورپین میڈیسین ایجنسی نے بھی اسی طرح کے بیانات ایسٹرازینیکا ویکسین کے حوالے سے جاری کیے ہیں۔

دوسری جانب ایسٹرازینیکا کی ایک ترجمان نے بتایا کہ مریضوں کا تحفظ کمپنی کی اولین ترجیح ہے۔

مگر مختف ممالک بشمول جرمنی، فرانس، نیدرلینڈز اور کینیڈا میں ویکسین کے حوالے سے خدشات کے باعث اس کا استعمال معمر افراد تک محدود کردیا گیا ہے۔

ایم ایچ آر اے کی جانب سے 2 اپریل کو ویکسین کے حوالے سے ڈیٹا جاری کیا گیا جس میں دماغ سے متعلق ایک بلڈ کلاٹ سی وی ایس ٹی کے 22 کیسز کے بارے میں بتایا گیا۔

اس قسم کے بلڈکلاٹ میں پلیٹلیٹس کی سطح کم ہوجاتی ہے اور جریان خون کا خطرہ بڑھتا ہے جبکہ بلڈکلاٹ کے 8 کیسز بھی دریافت ہوئے۔

ایم ایچ آر اے نے تصدیق کی کہ ان 30 میں سے 7 افراد ہلاک ہوگئے۔

ایم ایچ ار اے کے چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر جون رائنے نے بتایا کہ کووڈ 19 اور اس کی پیچیدگیوں کی روک تھام کے لیے ویکسین کے فوائد خطرات سے زیادہ ہیں اور عوام کو اس کا استعمال جاری رکھنا چاہیے۔

اس حوالے تحقیقات ابھی جاری ہے کہ ایسٹرازینیکا ویکسین کا استعمال بلڈ کلاٹس کا باعث بنتا ہے یا نہیں، یورپین میڈیسین ایجنسی نے کچھ دن پہلے بتایا تھا کہ ایسا ثابت نہیں ہوا مگر ممکن ہوسکتا ہے۔

عام حالات میں بھی ہر 10 لاکھ میں سے 16 کے قریب افراد کو بلڈ کلاٹس کا سامنا ہوتا ہے اور کورونا وائرس کو بھی اس مسئلے سے جوڑا جاتا ہے، جس کی وجہ سے شاید بلڈ کلاٹس کا یہ مسئلہ عام ہورہا ہے۔

جرمنی میں ویکسین استعمال کرنے والے 31 افراد میں سی وی ایس ٹی کیسز اور 9 ہلاکتیں سامنے آئی ہیں جن میں سے زیادہ تر کیسز جوان یا درمیانی عمر کی خواتین میں رپورٹ ہوئے۔

تبصرے بند ہیں.