اسلام آباد (آن لائن) اسلام انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ایم کیو ایم کے سینئر رہنماء ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کے تینوں ملزمان کو عمر قید کی سزا سنا دی انسداد دہشتگردی کورٹ روم نمبر دو کے جج شاہ رخ ارجمند نے محفوظ فیصلہ سنایا انھوں نے تینوں مجرموں خالد شمیم، محسن علی اور معظم علی کو عمر قید کی سزا دینے کے علاوہ دس، دس لاکھ کا جرمانہ بھی عائد کیا ہے جو کہ مقتول کی اہلیہ کو بطور زر تلافی ادا کیا جائے گا
تینوں ملزمان محسن علی ، معظم علی اور خالد شمیم کی جیل سے ویڈیو لنک پر حاضری لگائی گئی عدالت نے تفصیلی فیصلے میں لکھا کہ مجرموں کا جیل میں گزارہ گیا وقت سزا میں شامل ہو گا تفصیلی فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا کہ استغاثہ شواہد کی روشنی میں اپنا کیس ثابت کرنے میں کامیاب رہی انسداد دہشت گردی کی دفعہ 7 اے ٹی اے کے تحت عمر قید اور دو لاکھ روپے جرمانہ عائد جرمانے کی عدم ادائیگی پر چھ ماہ مزید کاٹنا ہوگی دستیاب شواہد سزائے موت کے لیے کافی تھے مگر ترمیمی آرڈیننس کے بعد بیرون ملک سے آنے والے شواہد پر سزائے موت نہیں دی جاسکتی ۔عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ عمران فاروق کو قتل کرنے کا مقصد تھا کہ کوئی بانی متحدہ کیخلاف بات نہیں کرسکتا عمران فاروق کو قتل کا مقصد عوام میں خوف و ہراس پھیلانا بھی تھاعمران فاروق قتل کیس دہشتگردی کے مقدمے کی تعریف پر پورا اترتا ہے ملزمان نے مادر وطن کا نام پوری دنیا میں بدنام کیا مثالی سزا کے مستحق ہیں قتل کی خبر نے پورے ملک اور ایم کیو ایم کارکنان میں خوف و ہراس پھیلایا عدالت نے فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ منصوبہ بندی سے قتل کیا گیا تاکہ آئندہ کوئی بانی ایم کیو ایم کیخلاف آواز نہ اٹھا سکے ثابت ہوا کہ عمران فاروق کو قتل کرنے کا حکم الطاف حسین نے دیا عدالت نے یہ بھی لکھا کہ ایم کیو ایم لندن کے دو سینئیر رہنماوں نے یہ حکم پاکستان پہنچایا ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو سے معظم علی نے قتل کے لیے لڑکوں کا انتخاب کیا عمران فاروق کو قتل کرنے کے لیے محسن علی اور کاشف کامران کو چنا گیا
محسن اور کاشف کو برطانیہ لے جا کر قتل کروانے کے لیے بھرپور مدد کی گئی یاد رہے کہ انسداد دہشتگردی کی عدالت میں اس کیس کی سماعت پانچ سال تک ہوئی فیصلہ سناتے ہوئے جج نے ریمارکس دیئے کہ استغاثہ نے اپنا کیس میں ثابت کیا کہ ملزمان ملوث تھے یاد رہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو شمالی لندن کے علاقے ایجوائر میں ان کے گھر کے پاس شام ساڑھے پانچ بجے کے قریب اینٹوں اور چھریوں کے وار کرکے قتل کردیا گیا تھا۔استغاثہ کے مطابق دو ملزمان محسن علی سید اور محمد کاشف کامران پہ الزام تھا کہ ان دونوں نے مل کر عمران فاروق کو قتل کیا محسن علی سید نے مقتول کو پیچھے سے پکڑا اور محمد کامران نے ان پراینٹوں اور چھریوں کے وار کیے تھے۔ل
ندن پولیس کو جب اس واقع کی اطلاع ملی جس کے بعد اس کیس کی تفتیش سکاٹ لینڈ یارڈ کے انسداد دہشت گردی ونگ ایس او15 (SO 15) کے حوالے کردی گئی۔اس کیس کی تفتیش کے دوران سکاٹ لینڈ یارڈ نے 4500 سے زائد لوگوں کے انٹرویوز کئے جبکہ 7600 سے زائد کاغذات کی چھان بین بھی کی۔پاکستان نے عمران فاروق قتل کیس کے سلسلے میں ایک انکوائری جون 2015 میں شروع کی اور ایف آئی اے کے ایک سینئر افسر اور موجودہ اڈیشنل آئی جی آپریشنز پنجاب انعام غنی کی سربراہی میں ایک جے آئی ٹی تشکیل دی جس کی تحقیقات کی روشنی میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے انسداد دہشت گردی ونگ نے 5 دسمبر2015 کو پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 302 (قتل)، 120B(مجرمانہ سازش)، 34(مشترکہ مقصد کی تائید میں متعدد اشخاص کی طرف سے مرتکب شدہ افعال)، 109 (کسی جرم میں اعانت کرنا) اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 7 کے تحت ایف آئی آر درج کی۔ایف آئی آر میں بانی ایم کیو ایم الطاف حسین، ایم کیو ایم کے رہنما محمد انور اور افتخار حسین قریشی، محمد کاشف خان کامران ،محسن علی سید، خالد شمیم اور معظم علی سمیت 07ملزمان نامزد کیے گئے۔ اس کیس میں چار ملزمان اشتہاری ہیں جبکہ تین ملزمان کے خلاف ٹرائل مکمل کیا گیا ہے جن ملزمان کا ٹرائل مکمل کیا گیا وہ اس وقت اڈیالہ جیل میں بند ہیں
تبصرے بند ہیں.